آواز دوست

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے درست کہا ہے کہ آئین کی بالا دستی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا،تمام حکومتوں اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے، حکومت عدلیہ، پارلیمنٹ، افواج سمیت ہر ادارے کے بارے میں آئین میں ایک ضابطہ اور فریم ورک موجود ہے جسے فالو کیا جائے، پر امن سیاسی احتجاج ہر ایک کا حق ہے اس کا راستہ روکنے سے مسائل مزید بڑھیں گے، ملک میں پر امن سیاسی کلچر کو پروان چڑھایا جائے جمہوری آزادیاں سلب کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ملک میں سیاسی و مذہبی اختلاف رائے اور معاملات پر اختلافات کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن دیکھا جائے تو آج سیاسی ودینی ہر دو جماعتیں احتجاج اور سڑکوں پرمرضی کے فیصلے پر بضد ہیں حکومت کا بھی انداز اور رویہ آمرانہ ہے جوکسی مذاکرات بات چیت اور مکالمہ کا راستہ اختیار کرکے معاملات کا حل نکالنے پرتیار نہیں ایسے میں اس سے بھی صورتحال مزید مشکل بن جاتی ہے کہ ہر فریق معاملے کا قابل قبول حل کی بجائے اپنی منوانے پر بضدہے تحریک انصاف کی سول نافرمانی اور بائیکاٹ کی دھمکی کے بعداب جے یو آئی بھی مدارس بل پرسڑکوں پر نکل کراپنی منوانے پر بضدہے حکومت بھی سنجیدگی سے ان معاملات کا حل تلاش کرنے کے الٹا ان عوامل کو عوامی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا ذریعہ سمجھ کر سرد مہری اختیار کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ عوامی شعور اور عوامی دبائو کی کمی اور عوام کا جذبات کی رو میں بہہ جانے کی روایت ہی ہے کہ اس طرح کے عناصر کو عوامی احتساب کا خوف نہیں رہتا حکومت سے بھی بالاخر بعداز خرابی بسیار معاملت ہو ہی جاتی ہے دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی ہے اور جو مہذب ممالک کہلاتے ہیںوہاں اس طرح کی صورتحال نہ ہونا ہی ان کے معاملات کے سلجھائو اور ترقی کا باعث ہوتا ہے اس طرح کی فضا کا ہمارے ملک میں ہونا خواب نظر آتا ہے اور جب تک ایسا ہی رہے گا تب تک اچھائی کی توقع عبث ہے سول سوسائٹی اور ایسی جماعتیں جو پرامن و مہذب طریقے اور مکالمہ سے تنازعات کا حل نکالنے پر یقین رکھتی ہیں ان کو آگے آنا چاہئے میڈیا میں بھی چیخنے چلانے والوں کو ترجیح دینے کی بجائے متین اور سنجیدہ انداز میں مقدمہ لڑنے والوں کو موقع دینا چاہئے مقتدر قوتوں کو بھی اپنی ماضی سے لے کر تاایندم غلطی کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی جانب سے طاقت اور قوت کے بل بوتے پر من مانی کا راستہ اختیار نہ کرنے کا ایک ماحول بن جائے اور ملک میں اصلاح کا عمل رواج پانے لگے۔

مزید پڑھیں:  فرق صاف ظاہر ہے