انسداد رشوت ، ابتداء اوپر سے

وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہم نے ابھی تک خود احتسابی نہیں کی جبکہ کرپشن کا خاتمہ خود احتسابی سے ہی ممکن ہے ۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جب کرپشن کے خاتمے کے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں بلکہ کرپشن کے پروموٹر بن جائیں تو کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔دریںاثناء پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی نے کرپشن کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنی حکومت کے مشیر برائے انٹی کرپشن کی کارکردگی اور محکموں میں جاری اربوں روپے کی کرپشن پر سوالات اٹھاتے ہوئے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع تورغرمیںچھ مہینوں کے دوران تین ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے جن کی تفصیلات ان کے پاس موجود ہیں۔اس موقع پر ہی شاید محکمہ انسداد رشوت ستانی کوحاضری لگانے کی یاد آئی جبھی تو اس نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات پر 30 افسران اور اہلکاروں کو تحقیقات کے لئے طلب کر لیا ہے ذرائع کے مطابق طلب کی جانے والے افسران میں سابقہ بعض اعلی افسران بھی شامل بتائے گئے ہیں ۔امرواقع یہ ہے کہ صوبے اور مرکز میں خواہ جس بھی جماعت کی حکومت ہو رشوت کمیشن اور بدعنوانی سے کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کا دامن صاف نہیں صرف یہی نہیں بلکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اب رشوت اور بدعنوانی کوباقاعدہ تسلیم بھی کیا جانے لگا ہے سیاسی عہدیدار اس کے لئے ”لیگل کرپشن” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب معمول کی بدعنوانی ہے جبکہ سرکاری افسران اس لقمہ حرام کو”سسٹم جنریٹڈ منی” کا نام دیتے ہیں اسے خواہ جو بھی نام دیا جائے یہ جہنم کی آگ کا وہ لقمہ ہے جسے جو نام دے کر کھایا جائے آخر ت میں روز جزاء کے دن اس کی وہ جزاملنا یقینی ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے لقمہ حرام اور رشوت دوسروں کاحق ناجائز طور پر کھانا قابل معافی ہے یانہیں اس حوالے سے علمائے کرام ہی درست اندازمیں رہنمائی کرسکتے ہیں البتہ ایک مختصر حدیث پر اگر غور کیا جائے تو اس کے مطابق کوئی درمیانی راستہ نظر نہیں آتا بلکہ رشوت دینے والا اوررشوت لینے والا دونوں نے آگ میں جلنا ہے اس ضمن میں بعض علمائے کرام صرف اتنی گنجائش بتاتے ہیں کہ اگر رشوت دینے والا بالکل ہی مجبور ہو اور ان کا حقیقی حق سلب ہوتا ہو تووہ اپنے حق کے حصول کے لئے ر شوت دے تو امید ہے کہ وہ پکڑے نہ جائیں اس سے قطع نظر ہم اگر اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو یہاں صورتحال مختلف ہے مال حرام کے عادی تو منہ کھولے بیٹھے ہوتے ہیں لوگ بھی امکان کی حد تک رشوت دینے سے بچنے کے مکلف ہونے کے باوجود مقدور بھر کوشش نہیںکرتے کہ وہ بغیر رشوت کے اپنا کام نکلوائیں یہاں تو ہر کوئی دے دلا کے کام نکالنے کامشورہ کھلے عام دے رہا ہوتا ہے بنا بریں انسداد رشوت کی ترغیب سب سے پہلے عوامی سطح پر دینے کی ضرورت ہے لوگ جب آسانی سے رشوت دینے پرتیار نہ ہوں اور رشوت کی پیشکش کی بجائے اس کی مزاحمت اور راشی عناصر کی نشاندہی و شکایت کا خوف دلایا جائے اور پھر شکایات پر ایسی کارروائی کہ ثابت ہونے پر محولہ افسر واہلکار بچ نہ پائے خواہ اس کے لئے سخت سے سخت قانون سازی کرکے اس کا اطلاق کرنا پڑے جب تک رشوت دینے اور رشوت لینے کا عمل رسواکن اور سوفیصد یقینی قابل سخت تعزیر نہیں بنایا جائے گا آسانی سے اس کی روک تھام ممکن نہ ہو گی یقینا ہر جگہ رشوت کا رواج ہے لیکن اگر شہری اپنی سہولت اور آسانی کے لئے ملی بھگت سے معاملہ شروع کرنے کی بجائے حتی الوسع حرام کھلا کر کام نکلوانے کے عذاب کا عمل اختیار نہ کریں اور سرکاری طور پر راشی بدعنوان اور بری شہرت کے حامل افراد کو مسند بخشنے کی بجائے ایماندار اور دیانتدار افراد کو کھڈے لائن لگانے کی بجائے عوامی مسندوں پربٹھانے کا فیصلہ کیاجائے تو یہ ایک اچھی ابتداء ہوسکتی ہے مگر یہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کے مصداق ضرور ہو گا اسی طرح وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیروں مشیروں معاونین خصوصی سپیکر وڈپٹی سپیکر چیف سیکرٹری وسیکرٹری حضرات وجملہ محکمہ جات و ادارہ جات کے صرف بااختیار افسران ہی حقیقی و عملی دیانتداری اپنائیں اور کچھ نہیں تو کم از کم بددیانت افراد ان کا انتخاب اور منظور نظر نہ ہوں اور معاشرہ رشوت کی لعنت کو باعث شرم اور نارجہنم سمجھنے لگے تو اور کچھ نہیں تو کم از کم کھلے عام اوردھڑلے سے رشوت کی روک تھام کے باب کاآغاز ہو سکے گاوفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر ابتداء کھلے عام رشوت ستانی اور بے دھڑک رشوت طلب کرنے کے عمل روک تھام پر توجہ دیں تواچھی اور مثبت ابتداء کہلائے گی حکمران و عمال سرکار باتوں کی حد تک نہیں عملی طور پر اگر خود کو عملی طور پردیانتدار ثابت کریں تو چھپی رشوت کی روک تھام نہ بھی ہو تب بھی علانیہ رشوت خوری کا ضرور ہوسکے گی ہے کوئی عمل کرنے والا؟۔

مزید پڑھیں:  طویلے کی بلا بندر کے سر