شاخ پھولوں سے لدی ہو تولٹک جاتی ہے

لگتا ہے حکومتی ارکان کو شاعری سے کوئی شغف نہیں ، ورنہ بیرسٹر گوہر کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ حکومت نے بیس دن میں عمران کی رہائی کا وعدہ نہیں کیا یوں جولوگ”فائنل کال” کے حوالے سے یہ دعوے کرتے پائے گئے کہ دھرنا ختم کرنے کے بدلے عمران خان کی رہائی کردی جائے گی ان کے دعوئوں کوغلط قرار دینے کے بارے میں چیئرمین تحریک انصاف یہ بیانیہ اختیار نہ کرتے کہ حکومت نے دھرنے کی جگہ تبدیل کرنے پر بیس دن کے اندر تحریک انصاف کے بانی کی رہائی کا کوئی وعدہ کیاتھا ، بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی بہن علیمہ خان کا یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 24نومبر یا اس سے قبل حکومت سے کوئی رابطہ ہوا ہی نہیں نہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات پر کوئی بات ہوئی ۔ بانی پی ٹی آئی کی بیس دن میں رہائی کی بات غلط ہے واضح رہے کہ علیمہ خان نے لاہور میں میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ قافلے پہنچ گئے تو حکومت دبائو کا شکار ہو گئی تھی حکومت نے دبائو میں آکر بیرسٹر گوہر کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کے لئے بھجوایا اور کہا تھاکہ انہیں بیس دن کے اندررہا کردیا جائے گا، اس حوالے سے اب تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے اندر اختلافات سامنے آرہے ہیں اور ایک دوسرے کو ”جھوٹا” ثابت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اس پر کسی استاد کا وہ شعر یاد آگیا ہے جس نے ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے کہا تھا
مرے محبوب نے وعدہ کیا تھا پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
ویسے توبیرسٹر گوہر خان نے از خود ہی علیمہ خان کے اس بیان کو غلط کہہ کرسرکار کی جان بھی چھڑا لی ہے تاہم اگر ایسا کوئی وعدہ حکومتی وزراء خصوصاً وزیر داخلہ محسن نقوی (جویہ سارا معاملہ ڈیل کر رہے تھے) کی جانب سے ہوا ہوتا تو ہمیں نہیں یقین کہ وہ 20 دن کی بات کرتے بلکہ زیادہ امکان ایس بات کا تھا کہ وہ صرف بیس کا ہندسہ ہی استعمال کرتے یوں وہ دن ہفتے ، مہینے یا پھر سال نہ کہہ کرجان چھڑا سکتے تھے ، بالکل ویسے ہی جیسا کہ مرزا غالب سے کسی نے پوچھا ، مرزا جی اب کے سال کتنے روزے رکھے؟ تو آگے سے مرزا خوشہ سے بڑا ذو معنی جواب دیتے ہوئے کہا ایک نہیں رکھابندہ لاجواب ہو گیا کہ ”ایک نہیں رکھا” کو ایک ہی نہیں رکھا یاپھر صرف ایک نہیں رکھا میں سے کیا سمجھا جائے گا؟ عیش دہلوی نے اسی لئے توکہاتھا
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیاسمجھے
مزا کہنے کاجب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کاکہا یہ آپ سمجھیں یا خداسمجھے
ادھر مولانا فضل الرحمان نے بھی اسلام آباد مارچ کی دھمکی دے کر کہا کہ مدارس بل پر دستخط کرنا دھوکہ ہے ہم وہ نہیں جو اسلام آباد آکر پیچھے ہٹ جائیں ، تمہاری گولیاں ختم ہوجائیں گی لیکن ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے ، دینی مدارس پر سرکار کی مداخلت قبول نہیں ، ہمیں دھمکیاں نہ دی جائیں ہم سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ، مولوی کبھی نہیں جھکتا ، مولانا صاحب کی ان چتائو نیوں کے بعد ہمیں تو سرکار کی حالت منیر نیازی کے اس شعر کے عین مطابق نظر آتی ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میںایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اب حکومت کیاکرے گی؟ کہ ابھی ایک دھرنا یا یلغارختم ہوئے بمشکل چند ہی دن ہوئے ہیں کہ ایک اور مارچ اور ممکنہ دھرنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں ،ویسے ہمیں مولانا صاحب سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ خود کو ”بڑابدمعاش” قرار دیں گے وہ جس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ”بدمعاشی” سے کوئی تعلق واسطہ کبھی نہیں رہا بلکہ علم پھیلانا جس کا ہمیشہ وتیرہ رہاہے ، ان کے والد گرامی کامذہبی اور دینی حلقوں میں ایک خاص مقام رہا ہے ، اس لئے اگر وہ اردو محاورے ”پہلے تولو پھر بولو” کو مدنظر رکھتے ہوئے الفاظ کاانتخاب کریں تو ”سب” کے حق میں بہتررہے گا کیونکہ یہاں تو بقول شخصے لوگ”زبان پکڑ لیتے ہیں”بلکہ عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کے ٹرولز ان کے انہی الفاظ کو اٹھا کر ری پیٹ براڈ کاسٹ کے اصول کے مطابق اسے نشر کرنا شروع کردیں گے اور بعض ٹرولز انہی الفاظ کی میمز بنا کر ان کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو مولانا صاحب عاجز آجائیں گے ویسے یہ کام ایک ہی ”طبقہ” کرسکتا ہے مگراپنی ضرورت اور مفاد کے تحت چونکہ ان کی اس وقت مولانا صاحب کے ساتھ ”گاڑھی” چھنتی ہے اس لئے فی الحال وہ ہاتھ ہولا رکھنے پر مجبور ہوں گے البتہ جب ان کے مفادات اور توقعات مولانا اور ان کی جماعت سے ختم ہوجائیں گی تو وہ حسب سابق مولانا کو ایک بارپھر”تنقید” بلکہ تنقیص کی سان پررکھتے ہوئے ان کو سابقہ القابات سے نوازتے ہوئے ”ہم سے بڑا کوئی” نہیں کے میمز بنابنا کر کہانی کے بچھوکی طرح ڈنک مارنے سے گریز نہیں کریں گے کیونکہ یہ بھی اپنی فطرت سے مجبور ہیں توکیامولانا صاحب کسی شاعر کے اس شعر کوذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت کریںگے کہ
بوجھ کانٹوں کاجھکاتا نہیں ڈالی کو کبھی
شاخ پھولوں سے لدی ہو تولٹک جاتی ہے
اور اب ایک دلچسپ خبرجس نے ہمیں ماضی میں پہنچا دیا ہے خبر یہ ہے کہ اضا خیل کے سرکاری گودام سے کروڑوں روپے کی گندم غاب ، افسر معطل یہ تو خیر گندم ہے اور معلوم نہیں اسے ”ٹھکانے”لگانے کے لئے کونسا طریقہ واردات استعمال کیاگیا ہے البتہ ہمیں ایسی ہی ایک واردات یاد آگئی جوآج سے لگ بھگ چالیس پچاس برس پہلے بڑی ہوشیاری سے ڈالی گئی تھی ، اہم کرداروں کے نام تو ہمیں معلوم ہیں مگر ہم ان کا نام لینے سے احتراز کریںگے کیونکہ اب یہ کہانی تو ویسے بھی قصہ پارینہ بن چکی ہے اور محولہ کردار اب اس دنیا میں رہے بھی کہ نہیں ، اس لئے مردہ لوگوں کوکیا یاد کرنا ، قصہ بہرحال کچھ یوں تھا کہ پشاور کے نانبائیوں کی اولین تنظیم کی بنیاد رکھ کر ایک صاحب نے ان کے نام پر ایک مرحوم فلور ملز(جہاں اب شادی ہال ، ہوٹل اور دفاتر تعمیر کئے جا چکے ہیں) کے ساتھ ٹھیکہ کیا اور وہاں سے روزانہ کی بنیاد پرآٹا اٹھا کراپنی ہتھ ریڑھیوں ، سنڈا گاڑیوں کے ذریعے باری آنے پر نانبائیوں کو پہنچانا شروع کر دیا کیونکہ آٹے کی قلت کی وجہ سے نانبائیوں کو انفرادی طورپریہ سارے مراحل مشکل ہو رہے تھے اب اس ٹھیکیدار نے یہ کہا کہ جوکوٹہ روزانہ اٹھاتا اسے ایک بنک کے ساتھ پسیج کر پہلے مقررہ گودام میں پہنچایا جاتا اورپھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے آگے تقسیم کرتا بنک کے کچھ کرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر طریقہ واردات یہ کیا گیا کہ آٹا نکلوانے کے بعداس کی جگہ چوکر(بورا) رکھ دیاجاتا تاکہ آٹے کو زیادہ دن تک پڑے رہنے کیوجہ سے گھن نہ لگے ، اس طرح بالاخر پسیج کئے ہوئے آٹے کو مکمل طور پر نکال کر بنک کے قرضے کی واپسی روک دی گئی آخر معاملہ کھل گیا قانون کے ادارے بھی بنک کی شکایت پر فعال ہو کر تفتیش میں لگ گئے بنک کاجوافسر متعلقہ ٹھیکیدار کے ساتھ ملا ہوا تھا ، اس نے بیان دیا کہ معاہدے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر پہلے کارکھا ہوا آٹا صبح نکال لیا جاتا اور بعد میں فلور مل سے نئی بوریاں لا کر رکھ دی جاتیں میں گن کر اور کھاتوں میں اند راج کردیتا اب مجھے کیا پتا کہ آٹے کی جگہ چوکر چھان کر لا کر رکھا جا رہاہے جبکہ ٹھیکیدار نے الٹا الزام لگایا کہ اس کے ساتھ بنک والوںنے فراڈ کرکے اس کے آٹے کی جگہ بورا رکھ دیا ہے اس لئے اس کی رقم واپس دلائی جائے ۔ اس کے بعد ہونا کیا تھا؟ ظاہر ہے نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش !!بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
گفتگو میں کوئی منطق نہ دلیل
کیوں مچاتے ہو بہت شور میاں
ہم تو شطرنج کے مہرے ہیں نذیر
چال چلتا ہے کوئی اور میاں

مزید پڑھیں:  اپنوں ہی کا اعتراض