اعدادو شمار کے گورکھ دھندے

عوامی مفاد کے حوالے سے ماہرین معاشیات ہمیشہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں نہ صرف پناہ لیتے ہیں بلکہ عوام کو سرخ بتی کے پیچھے لگا کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں ، بجلی کمپنیوں کو ترسیل و تقسیم و کم وصولیوں کے حوالے سے تازہ خبر پر حیرت کا اظہارہی کیا جا سکتا ہے نیپرا نے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی جائزہ رپورٹس برائے مالی سال 2023-24ء جاری کر دیں رپورٹس کے مطابق بجلی ترسیل وتقسیم کے نقصانات سمیت وصولیوں کی مد میں 661 ارب روپے کا نقصان ہوا ، بجلی کمپنیوں کی ترسیل و تقسیم کی مد میں ایک سال میں 281 ارب روپے جبکہ کم وصولیوں کی مد میں 380 ارب روپے کا نقصان ہوا ، رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2023-24ء میں تمام بجلی تقسیم کار کمپنیاں 100فیصد وصولی میں ناکام رہیں، ایک سال میں بجلی کمپنیوں کے خلاف 34 لاکھ سے زائد شکایات درج کرائی گئیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2023-24ء میں بجلی ترسیلی نقائص کے باعث صارفین سستے پلانٹس کی بجلی حاصل کرنے سے محروم رہے ، امرواقعہ یہ ہے کہ نیپرا کے جاری کردہ اعداد وشمار جیسا کہ اوپرکی سطور میں گزارش کی جا چکی ہے محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہے اور اس کامقصد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ بھی نہیں ، اس ساری صورتحال کو لفظوں کے ہیر پھیر کے سوا دوسرا نام دیا ہی نہیں جاسکتا ، اگر اس کوسادہ الفاظ میں بیان کیا گیا جائے توحاصل بحث یہ بنتا ہے کہ اگر ایک بندہ روزانہ اپنے کاروبار میں سو روپے کماتا ہے اور دو چار روز اس کی کمائی سو روپے سے کم ہوکر 80 روپے ہوجائے تو یہ دعویٰ تو کر سکتا ہے کہ اس کی کمائی میں 20 روپے کی کمی واقع ہو گئی ہے مگراسے کس طرح نقصان قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ کمائی کو اس نے اب بھی کرلی ہے البتہ اس میں قدرے کمی آگئی ہے بلکہ اب تو یہ بات اظہرمن الشمس ہوچکی ہے کہ آئی پی پیز میں ایسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جوایک یونٹ بجلی پیدا کئے اور قومی گرڈ کو دیئے بغیر ہی سالانہ اربوں روپے ڈکار جاتی ہیں جن کی وجہ سے عوام کی حالت پتلی ہوچکی ہے اور ان پر ”جرم بے گناہی” کے سبب ہرمہینے دوبعد نہ صرف بجلی کی قیمت میں اضافہ کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے بلکہ انہی اضافی قیمتوں کی بنیاد پر مختلف مدات میں شرح اور ٹیکسوں میں اضافہ ان کی چیخیں نکلوا رہا ہے مگر نیپراکے ماہرین معاشیات و شماریات عوام کا استحصال کرنے والی تقسیم کار کمپنیوں کے کم منافع پر نوحہ کناں ہو کر عوام کو ان کمپنیوں کی ”مظلومیت”پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اعدادو شمار کے اس گورکھ دھندے کی بنیاد پر یہ ماہرین مزید کتنا عوام کودھوکہ دیتے رہیں گے حالانکہ اب ملک بھرمیں اصل حقائق سامنے آجانے کے بعد عوام مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان آئی پی پیز کے ساتھ کئے جانے والے ظالمانہ معاہدوں کو ختم کرکے صرف اس بجلی کی قیمت اداکی جائے جوواقعی یہ کمپنیاں قومی گرڈ کو فراہم کرتی ہیں لیکن جب اس ظلم وجور کو مسلط کرنے والوں میں سے اکثر اقتدار کے ایوانوں میں فروکش ہوں اور اکثر کمپنیوں کی ملکیت بھی ان کی ہو تو وہ عوام کور یلیف دینے پرکیسے آمادہ ہوسکتے ہیں ، بلکہ ان کے ایک نمائندہ نے جو متعلقہ وزارت سے وابستہ ہے ، ابھی چند ماہ پہلے ا لٹا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کرنے اور ”ظالمانہ معاہدے کے تحت کاغذی اعداد وشمار” کے مطابق قوم و ملک کا استحصال کرنے کا راستہ روکنے یعنی حقیقی سپلائی کے مطابق ہی ادائیگی کے عوامی مطالبات پرالٹاعوام کو تڑیاں لگانے اور بین ا لاقوامی طور پراسکے منفی نتائج کے بارے میں سمجھاتا رہا ہے ، کیونکہ مبینہ طور پر دیگر طاقتور افراد کے ساتھ خود وہ بھی آئی پی پیز کے مالکان میں شامل قرار دیا جارہا ہے ، اس لئے عوام ایسے لوگوں سے خیر کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ محض منافع کی شرح میں معمولی کمی کو نیپرا ماہرین آئی پی پیز کے نقصان سے تشبیہ دے کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے میں مصروف ہیں ، مگر عوام اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ ان کی باتوں میں آکر کسی غلط فہمی کا شکار ہوجائیں وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ سٹیلمنٹ معاہدوں کی جو منظوری دی ہے اسے خوش آئند قراردیا جا سکتا ہے اس حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی ، ان آئی پی پیز سے بجلی ٹیرف میں کمی کے لئے نیپرا سے رابطہ کرے گی اور آئی پی پیز سے معاہدوں کے بعد عام صارفین کے لئے بجلی قیمت میں کمی ہوگی۔ وزیر اعظم کا اعلان حوصلہ افزا ضرور ہے اور عوامی سطح پر اس کو خوش آئند قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام پرآئی ایم ایف کی جانب سے کیا رد عمل آتا ہے اس لئے کہ ماضی میں جب بھی حکومت نے مختلف شعبوں میں عوام کو ر یلیف دینے کی کوشش کی آئی ایم ایف اس کی راہ میں مزاحم ہوئی اور عوام کو آسانیاں فراہم کرنے سے حکومت کو سختی سے منع کیا بہرحال امید پر دنیا قائم ہے کہ اصول کومد نظر رکھ کر توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائے گی اور عوام کو ریلیف مل سکے گا۔

مزید پڑھیں:  جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں