ام المسائل

گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کو درپیش ویسے تو لاتعداد مسائل ہیں تاہم جس مسئلے کو ام المسائل قرار دینے پر اتفاق رائے موجود ہے وہ افغان مہاجرین کی واپسی جس پر ملک بھر میں لاتعداد باراحتجاج کاڈول ڈالاگیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اب جبکہ افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ وہاں افغانوں کی مرضی کی اسلامی حکومت بھی قائم ہوچکی ہے ان کا پاکستان میں مزید قیام ملک کے اپنے عوام کے ساتھ زیادتی ہے اس ضمن میں سب سے پہلے پشاور میں شدید احتجاج مرحوم ارباب جہانگیر کی سربراہی میں قائم صوبائی حکومت کے دور میں ہوئی تھی جب افغانوںکی صفوں میں موجود ناپسندیدہ اورقانون شکن افراد نے عوام کاجینا حرام کردیا تھا چوری چکاری ، ڈاکہ زنی ، اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ان لوگوں کی تلویث نے معاشرے کودہشت و بربریت کاشکار کر رکھا تھا ، جس کے بعد بالاخر پشاور میں ان کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے خطرناک نتائج دیکھ کرصوبائی حکومت نے بہ امرمجبوری افغانوں کو شہری علاقوں سے نکال کر کیمپوں میںمنتقل کرنے کافیصلہ کیا تاہم جب یہ غلغلہ قدرے تھم گیا تو ان کو ایک بار پھر نقل وحرکت کی آزادی دے کر ایک بارپھرشاور پرمسلط کردیا گیا عالمی قوانین کے تحت کسی بھی ملک میں پناہ لینے والے مہاجرین کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر کے تحت باقاعدہ رجسٹرڈ کرکے عمومی طور پر کیمپوں تک محدود رکھاجاتا ہے ہمارے ہمسایہ ایران نے بھی افغان مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے سختی کے ساتھ مہاجر کیمپوں میں محصور رکھا اور باہر نکل کرکسی ضروری کام کے لئے جانے والوں کو ان کیمپوں سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی بلکہ شام تک واپس کیمپوں میں رپورٹ کرنا ان کے لئے لازمی ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں مہاجر کیمپوں کے نام پر ان کی خیمہ بستیوں کا اہتمام توکیا جاتا مگر وہاں سے نکلنے اور واپس جانے کے قوانین کا ان پر اطلاق کے حوالے سے سوالیہ نشان سامنے آتے رہے ہیں ان وجوہات کی بناء پر اور بعض ملکی اداروں کی مبینہ سہولت کاری کی وجہ سے اب تو ان میں سے ہزاروںبلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد میں یہ لوگ نہ صرف پاکستان کے شناختی کارڈ بلکہ پاسپورٹ تک حاصل کرکے یہاں کے باشندے بن چکے ہیں اب تازہ خبر کے مطابق 4 ہزار افغان مہاجرین کو غیرقانونی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بناء پر ملک بدرکرنے کی سفارش کی گئی ہے اس قسم کی خبروں پراظہارحیرت کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟ متعلقہ حکام ذرا یہ سوچیں کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں صرف چارہزار افغان مہاجرین ہی ملوث ہیں؟یا ان کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے بس بہت ہو چکی آخرکب تک ہم ان لوگوں کابوجھ اٹھاتے رہیں گے؟ اب ان کو مستقل واپسی کاراستہ بتانا لازمی بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے ۔

مزید پڑھیں:  کشتی حادثہ یا کچھ اور ۔۔۔۔؟