یہ دنیا کا میلہ، میلا بہت ہے

میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم ہر قسم کے مسائل کا شکار ہیں بلکہ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ان مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ کوئی صورت موجود نہیں ہے، ایک روایت ہے کہ دنیا تمھارے لئے بنائی گئی ہے اور تم آخرت کے لئے بنائے گئے ہو، لیکن ہم دنیا کی محبت میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ اپنی اصل منزل اور مقام کو بھول گئے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اتنے گھمبیر مسائل کا شکار بھی نہ ہوتے، کون نہیں جانتا کہ دنیا کی زندگی ایک کھیل کود سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی، آپ نے فرمایا کہ دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے، وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا، (مسند ابی داؤد)، پھر فرمایا کہ یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر کے برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا، (ترمذی)، پھر فرمایا کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا، قارئین کرام ہم محض اس بات پر فخر نہیں کر سکتے کہ ہمارے اسلاف بہت ہی عظیم لوگ تھے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے اقوال اور افعال کو حتی الامکان اپنی زندگی میں بھی لائیں، ہمارے اسلاف کے ایسے ہی چند واقعات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ہم سب ان سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کریں گے،حضرت عمرایک مرتبہ شام تشریف لائے تو شام کے اُمراء اور سرداروں نے اُن سے ملاقات کی، انھوں نے پوچھا میرے بھائی ابو عبیدہ کہاں ہیں، لوگوں نے کہا کہ ابھی آتے ہیں، چنانچہ وہ ایک اونٹنی پر سوار ہو کر آئے، جس کی ناک میں رسی پڑی ہوئی تھی، عمر نے اُن کو سلام کیا اور لوگوں سے کہا ہمیں اکیلا چھوڑ دو، پھر اُن کے ساتھ چلتے ہوئے اُن کے پڑاؤ پر تشریف لے گئے، جب وہاں پہنچے تو اُن کے گھر میں اُن کی تلوار، اُن کی ڈھال اور زین کے سوا کچھ نہ دیکھا، عمر نے فرمایا کہ آپ کچھ سامان رکھ لیتے، اس پر ابو عبیدہنے فرمایا کہ امیر المؤمنین! یہ ہمیں منزل تک پہنچانے کے لیے کافی ہے، (سیر اعلام النبلائ)، ایک موقع پر عمر نے چار سو دینار لیے اور ایک غلام سے کہا کہ ان کو ابو عبیدہ کے پاس لے جاؤ پھر کچھ دیر اُن کے گھر میں ٹھہرے رہنا اور دیکھنا کہ وہ کیا کرتے ہیں، غلام وہ رقم لے کر گیا اور اُس نے کہا امیر المؤمنین کہتے ہیں یہ قبول فرمائیں، فرمانے لگے کہ اللہ اُن کا خیال رکھے اور رحمت فرمائے، پھر اپنی باندی کو آواز دی اور اُسے کہا کہ یہ سات فلاں کو دے آؤ اور یہ پانچ فلاں کو، یہاں تک کہ اُنھیں ختم کر دیا، غلام عمر کے پاس واپس آیا اور انھیں اس واقعے کی خبر دی، اس نے دیکھا کہ عمر نے اتنی ہی رقم معاذ بن جبل کے لیے تیار کر رکھی ہے اور آپ نے وہ رقم دے کر غلام کو معاذ کے پاس بھیجا، معاذ فرمانے لگے کہ اللہ اُن کا خیال رکھے، اے باندی! فلاں کے گھر میں اتنے دے آؤ اور فلاں کے گھر میں اتنے، معاذ کی بیوی تشریف لائیں اور فرمایا کہ واللہ ہم بھی حاجت مند ہیں، ہمیں بھی دیجیے، اس وقت تھیلی میں دو دینار بچے تھے، معاذ نے اپنی بیوی کی طرف اچھال دیے، غلام نے واپس آ کر یہ حال عمر کو بتایاتو اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں، (سیر اعلام النبلائ)، ابو طلحہ کے پاس حضر موت سے سات لاکھ دینار آئے، وہ ساری رات پریشانی سے کروٹیں بدلتے رہے، اُن کی بیوی اُمّ کلثوم بنت صدیق اکبر نے پوچھا کہ کیا پریشانی ہے، فرمانے لگے کہ ساری رات سوچا ہے اور کہتا ہوں کہ آدمی اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان کیسے رکھ سکتا ہے جبکہ اس کے گھر میں اتنا مال رات بھر پڑا رہے، وہ کہنے لگیں کہ آپ کے دوست نہیں ہیں کیا، جب صبح ہو تو تھال اور پراتیں منگوائیے اور اس کو بانٹ دیں، اس پر ابو طلحہ نے فرمایا کہ تم پر اللہ کی رحمت ہو، بلاشبہ تم باتوفیق باپ کی باتوفیق بیٹی ہو، جیسے ہی صبح ہوئی، تھال منگائے اور سارا مال مہاجرین و انصار میں بانٹ دیا، ایک تھال علی کے گھر بھی بھیجا، اُن کی اہلیہ کہنے لگیں کہ اے ابو محمد کیا اس مال میں ہمارا کچھ حصہ نہ تھا، فرمانے لگے کہ تم صبح سے کہاں تھی، جو بچا ہے تم لے لواس تھال میں ایک تھیلی تھی جس میں ہزار سے کم درہم بچ گئے تھے، (سیر اعلام النبلائ)، ابن مسعود نے فرمایا تھا کہ جو آخرت کو مقصود بنائے گا، دنیا میں نقصان برداشت کرے گا اور جو دنیا کو مقصود بنائے گا، آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ اے قوم! فانی (یعنی دنیا) کے نقصان کو باقی رہنے والی (یعنی آخرت) کے لیے برداشت کر لو،(ایضاً)پھر فرمایا کہ تم لوگ رسول اللہۖ کے صحابہ سے زیادہ لمبی نمازیں پڑھتے ہو اور زیادہ مشقت اٹھاتے ہو لیکن وہ تم سے زیادہ فضیلت والے ہیں کیونکہ اُنھیں آخرت کا تم سے زیادہ شوق تھا اور دنیا کا تم سے کم، (صفة الصفوة)، ابو دردائ نے فرمایا تھا کہ میں دل کی ٹوٹ پھوٹ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، اُن سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے، فرمایا یہ کہ ہر وادی میں میرا مال ہو (یعنی ہر علاقے میں میرا ساز و سامان موجود ہو، (سیر اعلام النبلائ)، اشعث بن قیس اور جریر بن عبد اللہ، سلمان کی جھونپڑی میں داخل ہوئے، اُنھیں سلام کیا اور پوچھا کہ کیا آپ، رسول اللہۖ کے ساتھی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم، یہ دونوں حیرت میں پڑ گئے انھوں نے فرمایا کہ اُن کا ساتھی وہ ہے جو اُن کے ساتھ جنت میں داخل ہو، یہ دونوں کہنے لگے کہ ہم ابو دردائ کے پاس سے آ رہے ہیں، سلمان نے فرمایا کہ ان کا ہدیہ کہاں ہے، جواب ملا کہ ہمارے پاس تو کوئی ہدیہ نہیں، سلمان نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور امانت ادا کرو، اُن کے ہاں سے میرے پاس کوئی شخص بغیر ہدیے کے نہیں آتا، وہ کہنے لگے کہ ہم نے خیانت نہیں کی، یہ ہمارے اموال ہیں آپ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں قبول فرمائیں، سلمان نے فرمایا کہ مجھے تو ہدیہ ہی چاہیے، وہ دونوں کہنے لگے واللہ انھوں نے ہمیں کوئی چیز نہیں دے کر بھیجا، بس آپ کے بارے میں اتنا فرمایا کہ تمھارے درمیان ایسے آدمی موجود ہیں کہ جب یہ اکیلے رسول اللہۖ کے پاس ہوتے تھے تو رسول اللہۖ ان کے علاوہ کسی اور کی خواہش نہیں رکھتے تھے، جب تم اُن کے پاس جاؤ تو اُنھیں میرا سلام کہنا، سلمان نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے سوا کون سا ہدیہ مانگ رہا تھا، اور اس سے بہتر کون سا ہدیہ ہو سکتا ہے، (سیر اعلام النبلائ)۔

مزید پڑھیں:  جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں