جب سے سرکاری سکولوں میں مفت درسی کتب کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس سے طلباء و طالبات اور خصوصاً ان کے غریب والدین کو بہت سہولت مل رہی ہے، اگرچہ ادھر چند سال سے اس حوالے سے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور اکثر سکولوں سے طلباء اور طالبات کی تعداد کے مقابلے میں کتابوں کی فراہمی کم ہونے سے طلبہ کا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے کیونکہ اگر آدھے یا تین چوتھائی طالب علموں کو کتب سپلائی کی جائے تو باقی رہ جانیوالوں کو ان کتب سے محرومی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے یا تو بہ امر مجبوری وہ اپنے والدین کو بازار سے یہ درسی کتب خریدنے پر آمادہ کرتے ہیں، یا پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں کتب دستیاب ہی نہیں ہوتی کیونکہ ناشرین پچھلے بلوں کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے مزید کتابیں چھاپنے سے صریح انکار کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ طلباء اور طالبات کے تعلیمی حرج کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا، ادھر نجی تعلیمی اداروں کیلئے پرائیویٹ سکولزریگولرٹی اتھارٹی نے پشاور سمیت صوبہ بھر کے نجی تعلیمی اداروں کو طلبہ کے سکول بیگز کے وزن کے قانون پر عمل درآمد کرنیکی ہدایت کر دی ہے جبکہ محکمہ ابتدائی ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم نے صوبے کے سرکاری سکولوں میں مفت درسی کتب کا صافٹ ورژن یعنی ڈیجیٹل شکل متعارف کرانے پر غور شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں تمام اضلاع کے ایجوکیشن افسران سے رائے طلب کر لی گئی ہے جس کی روشنی میں مجوزہ ڈیجیٹل اجلاس میں ان سفارشات پر مزید پیشرفت کیلئے غور کیا جائیگا، محکمہ ابتدائی تعلیم کے ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نے درسی کتب کا خرچہ کم کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں طلبہ کی تعداد سے زائد کتابیں طبع کرنے کا سلسلہ بند کر دیا ہے اور پرانی کتابیں دوبارہ زیر استعمال لانے کی پالیسی بھی لاگو کی ہے، اس نئی پالیسی کے تحت نئی کتب کی طبع اور تقسیم کی شرح 50 فیصد سے بھی کم کر دی ہے، اس کے دوسرے مرحلے میں پیپرلیس پالیسی کے تحت درسی کتب کی طبع کی بجائے اس کو کمپیوٹرائزڈ شکل میں طلبہ کے سامنے پیش کرنیکی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے، جہاں تک درسی کتب کی سافٹ ورژن کے تحت طلباء اور طالبات کو فراہمی کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے کتابوں کی اشاعت پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ضرور آئیگی اور بعض اوقات کتابوں کی طلبہ کی ضرورت کے مطابق فراہمی میں درپیش مشکلات تو قابو ہو سکیں گے تاہم طلباء و طالبات کو ڈیجیٹل ورژن سے بھرپور انداز میں مستفید کرانے کیلئے ان کو اتنی بڑی تعداد میں کمپیوٹرز کی فراہمی کی ذمہ داری کون قبول کریگا؟ بہ فرض محال ایک سکول میں آدھی کلاس کو طبع شدہ درسی کتب فراہم کی جائیں گی جبکہ باقی کو کمپیوٹرائزڈ کتب سے استفادہ کیلئے کمپیوٹرز کی فراہمی سرکاری طور پر کی جائے تو اس صورتحال میں کمپیوٹر سے ” محروم”رہ جانیوالوں کے جذبات کیا ہوں گے؟ اور کیا اس سے محروم رہ جانیوالوں کی دل آزاری نہیں ہوگی ؟ اگر کمپیوٹر سرکاری طور پر فراہم کئے جائیں گے تو سکولوں کی انتظامیہ اس سلسلے میں پسند ناپسند کے معیار کو بروئے کار لا کر” امتیاز ” کی پالیسی پر عمل کرتے نہیں دکھائی دیگی؟ تاہم اگر کمپیوٹرز کی خریداری طلبہ کی اپنی ہو تو غریب طلبہ کے والدین اس بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بیروزگاری اور دیگر مسائل سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے یہ بوجھ برداشت کر سکیں گے؟ جبکہ ہر سال جب نئے طلباء و طالبات مقررہ کلاسوں میں پہنچیں گے تو ان کیلئے بھی مزید کمپیوٹرز کی خریداری ایک الگ سے مسئلہ نہیں بن جائیگا؟ اس کے علاوہ کمپیوٹرز کے ذریعے کلاسز چلانے کیلئے ہر سکول (گھروں کے علاوہ )میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے پر بھی اخراجات اٹھیںگے، مان لیتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں بنے گا تاہم غریب طلبہ کے گھروں میں نیٹ سہولت کے اخراجات ہر کسی کے بس میں نہ ہوں تو سسٹم کو ڈیجیٹلائزڈ کرنے کا کیا فائدہ ؟ اور سب سے اہم مسئلہ تو موجودہ حالات میں انٹرنیٹ پر پڑنے والی افتاد کا ہے یعنی حکومت نے بعض اہم وجوہات کی بناء پر ملک بھر میں جس طرح نیٹ کو کنٹرول کرنے کی پالیسی کے تحت سلو کر رکھا ہے اور اکثر بوجوہ مختلف علاقوں میں وقتی طور پر ہی صحیح انٹرنیٹ ہی سرے سے بند کر دیا جاتا ہے، ایسی صورتحال میں حصول علم میں طلبہ کو جن دشواریوںکاسامناکرناپڑے
گا،وہ ایک الگ مصیبت ہوگی،صرف کتب کی اشاعت کے اخراجات سے جان چھڑانے کیلئے سرکار ایسی پالیسی بنانے پر بضد دکھائی دے رہی ہے جس کے مزید کئی پہلو اپنے جلو میں مشکلات اور مسائل کا انبار لئے بالکل واضح صورت میں سامنے دکھائی دے رہے ہیں، اس پالیسی پر غیر جانبدارانہ انداز میں غور کیا جائے تو یہ ایک صریح ناقابل عمل منصوبہ ہے جس میں صرف کتب کی اشاعت میں” بچت” دکھا کر ایک اور انداز میں زیادہ اخراجات اٹھانے ہوں گے ،جبکہ انتہائی معذرت کیساتھ کہنے دیجئے کہ کمپیوٹرز کی خریداری میں اربوں کے گھپلوں کی صورت صوبائی خزانے کی بندر بانٹ کے سوا یہ کچھ بھی نہیں، حالانکہ درسی کتب کی اشاعت میں بھی ہر سال مبینہ خوردبرد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے بہتر یہی ہے کہ جن ناشرین کتب کو پچھلے بلوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی شکایات ہیں ان شکایات کو رفع کرنے اور اگلے تعلیمی سال کیلئے کتب کی بروقت اشاعت پر توجہ دیکر سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے کر لئے جائیں، صوبائی خزانہ پہلے ہی مبینہ غیر ضروری معاملات پر جس بے دردی سے خالی کیا جا رہا ہے اس میں اس قسم کے بے فیض اور ناقابل عمل منصوبوں کی گنجائش ہے ہی نہیں، یہ منصوبہ جن اعلی دماغوں نے مرتب کیا ہے انہوں نے اس کے دوسرے پہلوؤں پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ،اس لئے اس سے جس قدر جلد ہو چھٹکارا پا کر تعلیم کے میدان میں فضول اخراجات سے ہاتھ کھینچ لیا جائے تو بہتر ہے۔
Load/Hide Comments