صوبائی دارالحکومت جسے مغل شہنشاہ بابر نے اپنے عارضی قیام اور اس دور میں ہندوستان پر حملہ آور ہونے کے دوران گلابوں کا مسکن قرار دیا تھا اور جس کی خوبصورتی کے چرچے چار دانگ عالم میں ہوتے تھے، قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی اہمیت ایک لحاظ سے قائم تھی اور اس کی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہوا کرتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس شہر کی ڈیموگرافی میں منفی تبدیلیاں آنے سے اب اس کی جو حالت ہے اس کا نوحہ ایک بہت ہی مقبول شاعر اور فرزند پشاور جوہر میر نے اپنی ایک نظم میں یوں رقم کیا تھا کہ
فصیلیں توڑ کر کیا ہو گیا ہے
پشاور شہر صحرا ہو گیا ہے
مکانوں میں دکانیں بن گئی ہیں
سر بازار رسوا ہو گیا ہے
ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ ہر قومی اور بلدیاتی انتخابات کے بعد اس شہر پر(عوامی نمائندگی کے نام پر) جو بھی لوگ مسلط ہو جاتے ہیں وہ پشاور کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اسے دوبارہ شہر گل بنانے کے دعوے تو بڑے طمطراق سے کرتے ہیں مگر عملی صورت آج تک نظر نہیں آئی، ایک اخباری سروے کے مطابق اس وقت تجاوزات نے ” گلابوں کے شہر” کا جو حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے اس پر اس شہر کا نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے، کیونکہ ان تجاوزات کی جانب نہ تو میٹروپولیٹن کارپوریشن نہ ضلعی انتظامیہ کوئی توجہ دے رہی ہے نہ صوبائی کابینہ کے وہ اکابرین اس شہر سے کوئی تعلق واسطہ ثابت کرنیکی کوشش کر رہے ہیں جو زبانی کلامی اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے دعوے دن رات ورد زباں رکھتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، مگر یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق شہر بھر میں تجاوزات میں روزافزوں اضافے نے متعلقہ سرکاری ملازمین کیساتھ ساتھ دکانداروں کے بھی وارے نیارے کرنے شروع کر رکھے ہیں، دکانوں کے آگے فٹ پاتھوں کو” ناجائز ” کرائے پر اٹھا کر ایک جانب دکاندار ماہانہ لاکھوں روپے مفت میں کما رہے ہیں بلکہ متعلقہ اداروں اور ٹریفک کے اہلکار (مبینہ طور پر اونچی سطح تک کے ذمہ داران ) بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، جبکہ عوام کو ان بازاروں اور ان کے فٹ پاتھوں پر سے گزرنے میں جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے اگر اس پر کوئی منہ کھولے تو ”تجاوزات مافیا” ملکر اس کا جو حشر کرتے ہیں اس خوف کی وجہ سے لوگوں کے منہ بند رہتے ہیں ،یہ صورتحال ٹریفک حکام ،بلدیاتی اداروں کے ذمہ داران ،یہاں تک کے متعلقہ وزراء اور دیگر صوبائی حکام کیلئے باعث ندامت ہونے میں کسی بھی طور کم نہیں ہے ،مگر” ملی بھگت ” کے اس کھیل میں سب کی ساجھے داری پر سوالیہ نشان ہی لگائے جا سکتے ہیں، تو پھر کہاں کا گلابوں کا مسکن اور کہاں اس کی بحالی ؟ تاہم شہریوں کے صبر کی انتہا کہاں جا کر احتجاج میں بدل جائیگی اس پر ضرور سوچنا چاہیے۔
Load/Hide Comments