پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان کچھ عرصہ کشیدگی وخاموشی پرمبنی تعلقات کے بعد ایک مرتبہ پھرباہمی معاملات کے حل کے حوالے سے سرگرمیوں سے زیادہ توقعات کی وابستگی ماضی کے تجربات کی نفی ہوگی البتہ یہ امر خوش آئند ضرور ہے کہ جانبین کی سردمہری کے بعد دونوں کو ایک مرتبہ پھر ہمسایہ ملک سے ہمسایہ گیری کے روابط کی ضرورت کا احساس ضرور ہوا ہے جوطرفین کی تعمیری سوچ کا مظہر ہے اس امر کا پہلا اشارہ افغانستان کے لئے خصوصی ایلچی کی تقرری ہے، جس کے لئے تجربہ کار سفارت کار کو کابل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کافی عرصے سے اونج پنچ کاشکارچلے آرہے ہیں اس کی بنیادی وجہ اسلام آبادکا یہ شکوہ تھا کہ کابل کے حکمران کالعدم ٹی ٹی پی کی سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے پاکستان اس ضمن میں طالبان حکومت پر ذمہ دارانہ کردار پر زور دیتا آیا ہے بہرحال اب تعلقات میں کچھ بہتری کے آثار ہیں۔دیکھا جائے تو اس ضمن میں پاکستان کے داخلی پالیسیاں اوراب سیاست کے بھی اس میں در آنے کے با عث پیچیدگیاں زیادہ ہیں ایک ایسے وقت میں جب دونوں ملکوں کے درمیان معاملات پر سلسلہ جنبانی شروع ہوئی ہے ۔خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کی ان کی سابقہ تجویز کو مسترد کر چکی ہے، لیکن اب خود کابل کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب وفاقی حکومت نے ان سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مسائل (افغان عبوری حکومت کے ساتھ)مذاکرات کے بغیر حل نہیں ہوں گے، ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال بات چیت کے بغیر حل نہیں ہو سکتی۔عسکریت پسندوں کا حوالہ دیتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق16سے18ہزار عناصر سرحد کے پاکستانی حصے میں کام کر رہے ہیں، جبکہ22سے24ہزار سرحد پار افغانستان میں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ سرحد پار عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ جب وہ افغان علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں تو وہ پاکستان کی پہنچ سے باہر ہو جاتے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان، ایک ہی وقت میں افغانستان کے ساتھ تصادم اور مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔وزیراعلیٰ کے گلے شکوے اور ان کے سابق موقف کی بے قدری سے قطع نظر مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کو بھی سیاسی مفادات کے تحت متاثر کرنے والے موقف اختیار کرنے سے دریغ نہ کرنے کی روایت موجود ہے وزیراعلیٰ کا بیان کس سیاق و سباق میں تھا اس سے قطع نظر اس وقت کم از کم اس امر پرصوبہ اور وفاق دونوں کوکسی قسم کی سیاست زدگی سے گریز کرتے ہوئے واضح طور پردوسرے ملک سے تعلقات اور اس کے حالات و معاملات کے باعث خیبر پختونخوا کو درپیش مشکلات کا بالخصوص اورملک کو درپیش امور کو بالعموم مدنظر رکھ کر مذاکرات ومشاورت اور بوقت ضرورت معاہدہ کرکے طویل و پیچیدہ مشکل سے نکلنے کا راستہ اختیارکرنے کی ضرورت ہے یہ ایک مشکل عمل ضرور ہو گا مگر بالاخر اسے اختیار کیا جانا ہی پڑے گا یہ جو ہر کسی کی ضرورت اور مفاد میں ہے باہمی معاملات میں ویزہ پالیسی سرحدوں پر آمدورفت کے معاملات اورتجارت جیسے امور سرفہرست ہیں اس حوالے سے مفادات ہی کی نگرانی اور تحفظ کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کے اصول سے پیش رفت مشکل نہیں البتہ پاکستان کو اصل درپیش مسئلہ افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہے اس حوالے سے کابل حکومت کا طرز عمل ذمہ دارانہ نہیں اس تناظر میں پاکستان کو اس بات پر زور دینا چاہئے کہ جس طرح آئی ایس سے کابل میں طالبان کی حکومت کو خطرہ ہے، اسی طرح ٹی ٹی پی بھی اس ملک کے استحکام کے لئے ایک خطرناک خطرہ ہے۔ لہذا، ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان نظریاتی روابط کے باوجودموخر الذکر دہشت گرد گروہ کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے سے روکنا چاہئے۔ ٹی ٹی پی اور آئی ایس کے دونوں سیاسی عمل پر دہشت گردی کو ترجیح دیتے ہیں جس سے نمٹنے کے لئے تعاون کی راہ اخٰیار کرنا ہی بہتر حکمت عملی ہوگی۔ایسے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے روابط کوسطحی قسم کے اختلافات کی نذر نہیں ہوناچاہئے حالات متقاضی ہیں کہ طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان نئے سرے سے رابطے جاری رہنے چاہئیں۔ انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ تجارت اور عوام سے عوام کے مسائل پربھی توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ مزید برآں، کابل کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے اور اس ملک کو نقصان پہنچانے کے خواہشمند عناصر کو اپنے مذموم عزائم کو انجام دینے سے روکنے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے پاکستان کو بھی اہم معاملات میں افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں کے تعلقات استوار کرکے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔
![](https://i0.wp.com/mashriqtv.pk/wp-content/uploads/Pashani..55-358.jpg?fit=630%2C461&ssl=1)