انٹر نیٹ کو سیاست کی نذرنہ کریں

دنیا میں اب آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ انٹرنیٹ ہے ۔ اس وقت اگر سو ارب پتیوں کی فہرست بنائی جائے تو ان میں سے نصف صرف انٹرنیٹ کی وجہ سے ارب پتی بنے ہیں ۔ ہم بھی اسی دنیا کاحصہ ہیں جس میں انٹرنیٹ کے استعمال سے معیشتیں مضبوط ہورہی ہیں لوگوں کو روزگار مل رہا ہے اور ممالک ترقی کررہے ہیں ۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب پوری دنیا انڈسٹریلزیشن کی طرف جارہی تھی اس وقت ہم نے امریکہ کے سرد جنگ میں جانا پسند کیا اور اس جانب توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے سینکڑوں غریب ممالک ہم سے معاشی اور ترقی کی دوڑ میںآگے نکل گئے ۔ اگر ہم ستر کی دہائی اور اسی کی دہائی میں اپنی افرادی قوت اور وسائل کو دنیا کی دیگر ممالک کی طرح کچھ بنانے اور اسے دنیا کو بیچنے کی صنعت میں لگا دیتے تو ہمارا ملک بھی اقتصادی ، مواصلاتی اور انتظامی طور پر ترقی کرجاتا اور ہمیں امداد اور قرضوں کے سہارے جینے کی عادت نہ پڑتی ۔ چونکہ ہمارا سارا نظام افغانستان جنگ اور امریکی امداد پر چل رہا تھا اس لیے ہماری توجہ اس وقت کی ترقی کے دیگر ذرائع سے ہٹ گئی تھی ۔ جس کی ہمیں بہت بھاری قیمت چکانی پڑی ہے ۔ اس لیے توجہ نہ ہونے کی وجہ اس ملک میں کرپشن ایک روزگار بن گیا جو ہر سطح پر ہوتی رہی اور پھر دوسری اور تیسری نسل تک آتے آتے یہ کرپشن نئی نسل اپنا حق اور فرض سمجھ کر کرتی ہے ۔ افغان جنگ کی وجہ سے ہم نے جہادی ایندھن بننے والے افراد کی تیاری میں یہ نہیں سوچا کہ جب یہ جنگ ختم ہوگی تو اس تیار کردہ نسل کا کیا کریں گے اور ان کو پھر کہاں مصروف کریں گے ۔ اس دور میں ان لوگوں کو سہولت دینے کے لیے منشیات کی سمگلنگ کی کھلی اجازت دی گئی جس کو پھر روکنا عملاً ممکن نہیں رہا ۔ ساتھ ہی ہر طرح کی سمگلنگ کو فروغ دیا گیا جس سے مقامی طور پر چھوٹی بڑی صنعتوں کا وجود میں آنا ہی بند ہوگیا ۔ اس سب کے نتیجے میں بے روزگاری وجود میں آئی ۔ حکومت کی توجہ تعلیم اور صحت پر نہیں گئی اور ان دو شعبوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری ہی نہیں کی گئی ۔پھر اس ملک پر چالیس لاکھ سے زیادہ غیر ملکیوں کا بوجھ ڈالا گیا جس سے تاحال ہم پیچھا نہیں چھڑ اسکے ۔ اس کے نتیجے میں ردعمل کے طور پر دہشت گردی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس سے بھی تاحال ہم نجات نہیںپاسکے ۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ملک میں سیاحت ختم ہوگئی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول نہ بن سکا۔ یہ سب کچھ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد بند ہوجانا چاہئیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ اس پر گزشتہ ایک دہائی سے ہم نے سیاست کے نام پر ملک کی ترقی روکی ہوئی ہے ۔ یہ دور گزشتہ ادوار سے زیادہ اہم ہے ا س لیے کہ اس دور میں انٹرنیٹ کی ایک اضافی اور سہل صورت دستیاب ہوگئی ہے جس کا استعمال کرکے ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیگر ممالک سے تجارت کرسکتے ہیں ، اپنی خدمات کے عوض ان سے خطیر سرمایہ حاصل کرسکتے ہیں اور لامحدود خود روزگاری کے مواقع حاصل کرسکتے ہیں ۔ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان ، بنگلہ دیش یہی کررہے ہیں ۔ ان ممالک کے لاکھوں افرادانٹرنیٹ کی مدد سے معاشی طور پر ترقی کررہے ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب اس پر خدا کا شکر ادا کررہے ہیں ستمبر کے مہینے میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے اور ای تجارت کرنے والوں کی طرف سے نظام میں دو ارب ڈالرز آئے ہیں۔ کاش ہم تعلیم یافتہ ہوتے اوردنیا کی خبر رکھتے تو ہمیں علم ہوتا کہ ستمبر کے مہینے میں صرف انٹرنیٹ پر کام کرکے بنگلہ دیش کے شہریوں نے سترہ ارب ڈالرز اور ہندوستان کے شہریوں نے تیس ارب ڈالر حاصل کیے ہیں ۔ ان اربوں ڈالر ز سے ان کی معیشت مضبوط ہوگی اور ان کے ملک میں ترقی آئے گی ۔ ہمارے ملک کا نمبر انٹرنیٹ کی سپیڈ اور استعمال میں ایک سو اٹھانونے نمبر پر آگیا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں جب غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کا سب سے سہل اور آسان ذریعہ انٹرنیٹ ہے وہ پاکستان میں پابندیوں کا شکار ہے اور نہ صرف پابندیوں کا شکار ہے بلکہ اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ اس لیے کہ سال دو ہزار سترہ سے بنگلہ دیش آئی ٹی پر دو ارب ڈالر خرچ کررہا تھا اور اس کے بعد ہر برس اس میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ کررہا ہے جس سے اس کو اس کے شہریوں کو مسلسل فائدہ مل رہا
ہے ۔ اس وقت دنیا بھر میں آئی ٹی میں ماہر افرادی قوت کی بنگلہ دیش دوسری بڑی منڈی ہے ۔دنیا بھر سے آئی ٹی کمپنیاں ہندوستان اور بنگلہ دیش کا رُخ کررہی ہیں ۔ ان ممالک کے تربیت یافتہ نوجوانوں کو ہائر کررہی ہیں ۔ جبکہ اس ضمن میں پاکستان کا حصہ لاکھوں گنا کم ہے ۔ ہم آئی ٹی پر سرمایہ کاری نہیں کررہے ۔ ہم انٹرنیٹ کو صرف اس وجہ سے سلو یا بند کردیتے ہیں کہ اس کا استعمال سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد یا انتشار پھیلانے کے لیے کرتی ہیں ۔ یہ ایک عجیب منطق ہے کہ اس ملک میں جب جب ترقی کرنے کا کوئی راستہ جسے دنیا اختیار کرتی ہے ہم کسی نہ کسی صورت اس کا راستہ روک لیتے ہیں ۔انٹرنیٹ اس وقت دنیا میں معاشی
ترقی کے لیے اکسیجن کا کام دیتی ہے ہمیں بھی دنیا کی طرح اس سے فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔ ہماری ساری توجہ پروپیگنڈہ اور جعلی خبریں پھیلانے پر مرکوز ہے جسے اس قوم نے ایک عادت بنا لیا ہے اس عادت کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ملکی سطح پر اس طرح کے کاموں کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور پھر ان قوانین پر دنیا کی دیگر ممالک کی طرح عمل درآمد کی ضرورت ہے ۔ مقصد کے لیے ہر سیاسی جماعت نے اپنا ایک سیل بنایا ہوتا ہے جہاں جدید ذرائع کا استعمال کرکے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ۔ اور ذرا کمال دیکھیں کہ پوری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں قانون کی حکمرانی ہے جو بھی کام کوئی کرتا ہے وہ اس کے سزاو جزا کا حقدار ہوتا ہے ۔لیکن پاکستان میں ہم اس کام کو روکنے کی بجائے اس کام میں استعمال ہونے والے ذرائع کو ٹارگٹ کرتے ہیں ۔ یہ ذرائع ہزار اچھے اور فائدہ مند کاموں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سب کام بھی رُک جاتے ہیں ۔ دنیا میں کنٹینرز کی مدد سے ترسیل کا کام کیا جاتا ہے اور پاکستان میں اب کنٹینرز کی مدد سے راستے اور شہر بند کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے کنٹینر ز کے کاروبار سے وابستہ افراد اس کام میں سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں کنٹینروں کی ترسیل کا کاروبار کم ہوتا جارہا ہے ۔ ہمارے فیصلہ سازوںکو اس حوالے سے بیٹھ کر غور وفکر کرنا چاہئیے اس لیے کہ ملک کی ترقی اور معاشی ترقی و کاروبار اہم ہے ۔ ان کا خیال رکھنا چاہئیے اور انٹرنیٹ جیسے ضرورت کو تحفظ حاصل ہونا چاہئیے اور اس کی ترسیل اور فراہمی کو موثر بنانا چاہئیے ۔ اس پر پابندی اور قدغیں لگانے کی جگہ اس کے لیے قانون سازی اور اس کے غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے ۔ اس لیے کہ پاکستان کے پاس انٹرنیٹ ہی ایک مستقل کمائی کا ذریعہ رہ گیا ہے ۔ باقی دنیا نے ہم سے عملی تجارت چھوڑ دی ہے۔

مزید پڑھیں:  اشرف غنی طالبان اور پاکستان کا مفاد