چوں کفر از کعبہ برخیزد

میں یہ سطریں ایک ایسے ماحول میں بیٹھ کر لکھ رہی ہوں جہاں پڑوس میں دو عالمہ بہنوں کے گھر دستار بندی کی تقریب کے سلسلے میں گزشتہ تین چاردنوں سے جاری میوزک آمیزترانوں کے شور کاشاید آخری دن شادی بیاہ اور منگنی کے مواقع پر تو طوفان بدتمیزی گویا روایت کے طور پر معاشرے نے قبول کر لیا ہے لیکن قرآن جیسی عظیم کتاب کے ختم کے موقع اس طرح کا شور شرابہ کم از کم میرے لئے نہایت تکلیف دہ عمل ہے ہمسایوں میں گردے کی ایک مریضہ کا گھر ختم القرآن والے گھر سے متصل ہے جبکہ بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض تو ہرگھرمیں پائے جاتے ہیں اتوار کا دن ہونے کے باعث بچوں اور لوگوں کی اکثریت آرام کی متمنی ہوتی ہے مگریہاں بعد نمازفجر عجیب و غریب قسم کے میوزک آمیز ترانے چل رہے ہیں محلے کے ایک بزرگ دروازے پر جاکر بچے کو بجھوایا کہ ترانے بند نہیں کرتیں تو کم
از کم آواز ہی آہستہ فرمائیں مگر گھر میں مرد موجود نہ تھے اور عالمہ صاحبائوں نے انکار کیا اب ان کو عالمہ کہیں یا جہلا قرار دیں جن کو نہ تو لائوڈ سپیکر کے استعمال کے قوانین کا پتہ ہوگا اور نہ ہمسایوں کے حقوق کا علم ہو گا انسانی حقوق کی بات تو ویسے بھی بطور فیشن ہوتا ہے یہ ایک منظر نامہ تھا جس سے زچ ہو کر میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا مساجد اور مدارس میں بھی اس طرح ہوتا ہے توبتایاگیا کہ مدارس میں شاید ہوتا ہو گا اس کے مشاہدے کا کبھی اتفاق نہ ہوا البتہ مسجد میں اس طرح کے پروگراموں کومنبرنبوی ایک طرف رکھ کر باقاعدہ صوفے اور ساتھ ساتھ گائو تکیے لگا کر ایک بڑا سٹیج مسجد کے اندر بنا کر دستار بندی کی تقریب منعقد کرنے کا مشاہدہ ضرور ہے علمائے کرام بھی بدقسمتی سے اب اس طرح کے تقریات کی فلمبندی اور ڈیجیٹل تصویر کشی کا شوق فرمانے لگے ہیں ۔ قرآن پڑھنا پڑھانا سکھانااور درس و تدریس و تبلیغ ہر مسلمان کے لئے باعث صد احترام ہے اس کا علم دینے والے اور اس کاعلم حاصل کرنے والے دونوں محترم و معزز ہیں مگر محولہ جس صورتحال کی محلہ اور مسجد دونوں میں منظر کشی کی گئی میں اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتی علمائے کرام اور خصوصاً وہ علمائے کرام جو با اثر ہیں جن کی
بات سنی جاتی ہے اور جن کی تقلید ہوتی ہے انہی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ختم القرآن کی بابرکت محفل کو رسومات اور رواج کا شکار ہونے سے بچانے کی فکر کریں معاشرتی آزادی کی حد بھی دوسرے کے ناک تک ہوتی ہے یہاں تولائو ڈ سپیکر کی تیز آواز سے دوسروں کے کان پھاڑ نے نیند و آرام میں خلل ڈالنے خاص طور پر مریضوں جو پہلے ہی تکلیف میں ہوتے ہیں ان کو مزیدپریشان کرنے کا عمل ہو
رہا ہے ۔شرعی طورپراس کی گنجائش ہے یا نہیں اس بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں نیز حضوراقدس صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک میں اس طرح کے ختم القرآن کی کوئی مثال موجود ہے یا نہیں خلفائے راشدین کے دور میں ایسا کچھ ہوا بھی یا نہیں اس بارے علمائے کرام ہی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیںاتفاق سے میرا گزشتہ کالم بھی معاشرتی رسوم او ر رواج کے بارے میں تھا جس میں مختلف رسوم اور رواج بارے بات کی گئی تھی معاشرے میں رسوم و رواج کے رواج پانے اور خالص دینی اور اسلامی محفلوں کے اس طرح سے انعقاد میں بہت فرق ہے شادی بیاہ اور منگنی کے محافل محلوں اور گھروں میں ہوں یا شادی ہالز میں خرافات سے بھرے ہونے میں کوئی شک نہیں ہم خود بھی اس معاشرے کا حصہ اور ان خرافات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن کم از کم دین کو تو رہنے دیں اسے تو کم از کم یوں گلی محلوں میں مذاق نہ بنایا جائے دین کو کس طرح دنیا کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے میں اس طرف جانا نہیں چاہتی اس بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ اسلام میں مولوی کوئی پروفیشن نہیں ہر مسلمان کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ نماز پڑھا سکے اور بیٹا اس قابل ہو کہ وہ اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھا سکے ۔ انہوں نے بڑی گہری بات کی تھی ان کا مشاہدہ اور علم کمال کا تھا صرف وہی نہیں مولانا تقی عثمانی نے بھی حال ہی میں ایک جماعت کے حوالے سے کہا
ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ خدانخواستہ مستقبل میں یہ کسی نئے مذہب کا پیش خیمہ نہ بنے ۔جب تک علمائے کرام اور اہل مدارس درست اور صحیح راستے پر رہیں گے اور صحیح رہنمائی اور پیشوائی کا فریضہ نبھاتے رہیں گے اور نبھاتے آئے ان کی تکریم میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی کسی حکومت کو یہ جرأت ہوئی
کہ وہ مدارس کو ریگولیٹ کرے جب اس کا موقع دیاگیا تو آج دیکھیں مدارس بل کا قضیہ چل رہا ہے علاوہ ازیں بھی اب معاشرے میں علماء پر سو فیصد اعتماد کی صورتحال نظر نہیں آتی اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ اس طرح کے پروگرامات اور خود نمائی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ آج علمائے کرام سے چندے کا حساب مانگا جانے لگا ہے مدارس بل کو آمروقت جنرل (ر) مشرف کے دور کے حالات و معاملات سے جوڑنے کی گنجائش موجود ہے مگر یہ جو عام مسلمان چندے دے کر اس کے استعمال بارے بے یقینی کا شکار ہو رہے ہیں علماء سوچیں تو اس سے بڑی عدم اعتماد کیا ہوگی سوچیں تو یہ یہیں تک نہیں رہے گا بلکہ شیشے پر پڑی لکیر کی طرح یہ آہستہ آہستہ نمایاں ہوتی جائے گی لہٰذا اس غلط فہمی کو یہیں دور کرنا خود علمائے کے مفاد میں ہے یہ درست ہے کہ سارا معاشرہ ہی اس طرف جا رہا ہے مگر اس کے باوجود الحمد للہ یہ مساجد ومدارس اسی معاشرے کے لوگوں ہی کے تعاون سے آباد ہیں اور دھڑا دھڑ ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے علماء کو صرف یہ کرنا ہے کہ ختم القرآن اور دستار بندی کے بابرکت محافل کی حرمت کی حفاظت کریں ان کو سادہ اور باوقار رہنے دیں اور محفلوں کو گلپاشی اور مصنوعی روشنیوں سے منور و آراستہ کرنے کی بجائے روحانی فیوض و برکات کا ذریعہ بنائیں اور بس۔

مزید پڑھیں:  اچھی کوشش