مدارس رجسٹریشن میں بڑی رکاوٹ

مدارس بل،بات نہ مانی گئی تو فیصلہ میدان میں ہوگا: فضل الرحمان

ویب ڈیسک: جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس بل ہم کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے ،یہ بات نہ مانی گئی تو پھر ایوان کی بجائے میدان میں فیصلہ ہوگا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس بل اب ایکٹ بن چکا ہے اور اب اگر بل کو ایکٹ تسلیم کیے بغیر دوبارہ منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
اپنے خطاب میں سربراہ جمعیت نے کہا کہ ایک غلط روایت کیوں ڈالی جارہی ہے، اس طرح تو آئین ہی ختم ہوجائے گا، 28 اکتوبر کو صدر مملکت نے بل پر اعتراض کیا اور اسپیکر نے قلمی غلطی قرار دے کر تصحیح کی اور بل واپس ایوان صدر بھیجا، ایک اعترض کے بعد صدر مملکت دستخط نہیں کرتے تو 10دن بعد بل ایکٹ بن جاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی تھی، کوشش یہ ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہم ایوان اور آئین کے استحقاق کی جنگ لڑ رہے ہیں کوشش یہ ہے کہ ہم افہام و تفہیم سے معاملات حل کریں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف ناراض ہوجائیں گے، کیا ہماری قانون سازی غیروں کی ہدایت اور رضامندی سے وابستہ ہوگی؟ کیا ہم آزاد ملک نہیں ہیں؟ اگر ہم غلام ہیں تو ہمیں بتایا جائے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ سابق صدر عارف علوی نے ایک بل پر دستخط نہیں کیا تو بل ایکٹ بن گیا، یہ ایک نظیر بن چکی ہے اب صدر کو اختیار حاصل نہیں، اگر صدر 10 دن کے اندر صدر دستخط نہیں کرتے تو قانون بن جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکی کانگریس میں عمران خان کے حق میں قرارداد پاس کی جاتی ہے تو کہتے ہیں پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے جو عمران خان کے حوالے سے بات ہو کیا وہی صرف مداخلت ہے یہ سب مداخلت نہیں کیا؟
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کو پامال نا کیاجائے، بہت سارے ادارے ہیں آپ نے مدارس میں ہی تقسیم کیوں کی؟ مدارس میں تقسیم کیا اس لیے کی کہ علما آپس میں لڑیں؟ تو ہم نہیں لڑیں گے، تنظیمات مدارس نے موقف دے دیاہے کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دینی مدرسے کے نصاب کو قبول نہ کرنا بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت ہے، اب اس حوالے سے ان کو بین الاقوامی سپورٹ مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ راز تو آج کھلا ہے کہ ہماری قانون سازی آئی ایم ایف کی مرضی سے ہو رہی ہے، ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمہ داریاں بھی یہ ایوان نبھار ہا ہے، ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 2004میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے، پہلا سوال یہ تھا کہ دینی مدارس کا مالیاتی نظام کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا کہ مدارس کا نظام تعلیم کیا ہے؟ تیسرا سوال تھا کہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد جب حکومت مطمئن ہو گئی تو اس وقت ایک قانون سازی ہوئی اور اس میں کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ ان میں کسی طرح بھی فرقہ وارانہ تعلیم نہ ہو، شدت پر آمادہ کرنے والا کوئی مواد پیش نہ کیا جائے، البتہ تقابل ادیان کے حوالے سے استاد کی علمی بحث کو استثنیٰ دیا گیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بعد میں کچھ مشکلات آتی رہیں، ہماری خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں، وہاں ڈرانے، دھمکانے اور پریشان کرنے کا ایک سلسلہ چل رہا تھا، جس پر سنجیدہ شکایت اٹھی اور 2010 میں ایک مرتبہ پھر معاہدہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کے حوالے سے کوئی بھی شکایت براہ راست مدرسے میں جا کر نہیں کی جائے گی بلکہ اس تنظیم سے کی جائے گی جس کا اس مدرسے سے الحاق ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد 18 ویں ترمیم پاس ہوئی تو خود حکومت نے سوال اٹھایا کہ مدارس 1860 کے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں، اب چونکہ وہ صوبائی مسئلہ بن گیا ہے لہذا آپ وفاقی وزارت تعلیم کے ساتھ خود کو وابستہ کرلیں لیکن وہ ایکٹ نہیں بنا، وہ محض ایک معاہدہ تھا، وہ معاہدہ 3 باتوں پر مشتمل تھا۔

مزید پڑھیں:  بیرسٹر محمد علی سیف کی پیر پگاڑا سے ملاقات،عمران خان کا پیغام پہنچایا