تقطیب کی فضا

تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا جوماحول بنتا نظر آرہا تھا ایسا لگتا ہے کہ فریقین کی اب اس ماحول میں دلچسپی کم ہونے لگی ہے جس کے باعث ملک میں سیاسی بے یقینی کے بادل چھٹنے کے لئے مزید انتظار کرنا پڑے گا چونکہ حکومت کے پاس تحریک انصاف کے پاس کھونے کے لئے زیادہ کچھ نہیں سوائے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی راہ ہموارکرنے کے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت مشکل صورتحال سے دو چار ہوسکتی ہے اس لئے ردوکد کامظاہرہ فطری امر ہے خود اسیر بانی کی جانب سے پی ٹی آئی کی قیادت کے حوالے سے جس عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا اس سے پیدا ہونے والی بد اعتمادی اور کمزوری سے بھی مذاکرات کا ماحول متاثر ہونا فطری امر تھا شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کو کہنا پڑا کہ حکومت پی ٹی آئی مذاکرات اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتے جب تک خود عمران خان کا کلیئر میسج نہ آجائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ایک آواز ہے جو بانی پی ٹی آئی کی ہے، باقی جتنے رہنما ہیں وہ سب بانی پی ٹی آئی سے ہی ہدایت لیتے ہیں۔اس کے برعکس سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے ایک بار پھر مذاکرات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے مذاکرات سے متعلق سوال پر سابق اسپیکر نے کہا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔پل میں تولہ پل میں ماشہ ہونے کی عادی سیاسی قیادت ایک دوسرے کے اعصاب کاامتحان تولے رہی ہے لیکن ان کے حربے عوام کے اعصاب پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں عوامی سطح پر اب یہ رائے پختہ ہوگئی ہے کہ سیاسی قیادت کو اب ہر قیمت پرایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا چاہئے اور ملک کو مزید اکھاڑا بنانے سے گریز کیاجاناچاہئے کم از کم طرفین کی ایک بیٹھک ہو جائے تو اس سے ا یک اچھا تاثر پیدا ہو گا مگر یہاں مذاکرات کی ڈول سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسے سول نافرمانی کے اعلان سے ہوا نکالنے کے لئے حربے کے طور پر استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ تحریک انصاف خود متذبذب نظر آتی ہے کہ وہ کیا راستہ اختیار کرے ایک مشکل پی ٹی آئی کی یہ نظر آتی ہے کہ جیل کے اندراور باہر کے ماحول سے تضادات کاشبہ ہے جسے دور کئے بغیر کوئی بڑافیصلہ سنانا اور اس پر عملدرآمد مشکلات کا باعث ہو گا بنابریں دیکھا جائے تو حکومت اور تحریک انصاف دونوں بیک وقت اپنی اپنی جگہ کسی آرام دہ جگہ نہیں بلکہ جانبین بے چینی اور عدم اطمینان کا شکار ہیں اپنے مسائل میں کمی اور مشکلات کے حل کے منتظر عوام خواہ وہ خیبر پختونخوا کے ہوں یا دوسرے صوبوں کے سبھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب سیاسی محاذ آرائی چھوڑ کرملک و قوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ان حالات سے ملک و قوم کو نکالنے کاواحد راستہ مفاہمت اور مذاکرات سے ہی ممکن ہو سکتے ہیںجس کے لئے ماحول بنانے اور قائل ہونے پر آمادگی ہر فریق کی ترجیح ہونی چاہئے۔حکومت کوچاہیے کہ وہ مذاکرات کے لئے ماحول بنانے کی ذمہ داری نبھائے اس کے لئے عقابوں کو لگام دے کر اچھی ابتدائی جا سکتی ہے تاکہ ماحول بنے اعتماد سازی کے لیے کچھ اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش پر مثبت ردعمل دے۔ملک میں اس وقت جاری اور طاری صورتحال کاتقاضا ہے کہ حکومت ا ور تحریک انصاف دونوں بالخصوص اور سیاسی جماعتیں بالعموم جہاں موجودہ حالات سے نکلنے کے لئے مذاکرات کے راستے کوسنجیدگی سے اختیار کرنے کو مقصد اول بنائیں بلکہ اس سے بہتر وقت نہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک وسیع البنیاد اور جامع میثاق سیاست کرکے آئندہ کے لئے بار بار پیش آنے والے اس قسم کے حالات اور مداخلت کا راستہ مستقل طور پر بند کرنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل طے کرکے اس پر عملدرآمد کا عزم صمیم کریں پارلیمنٹ سے بہتر اس کے لئے کوئی اور موزوں فورم نہیں ہوسکتا اس طرح کا میثاق اگر پارلیمان کی سطح پر اور تمام پارلیمانی جماعتوں اورپارلیمان سے باہر کی جماعتیںاس پر اتفاق کر لیں تو آئندہ فارم 45اور 47کا تنازعہ کھڑا ہو گا اور نہ ہی جھرلو پھیرنے کے الزامات لگیں گے جب تک سیاسی جماعتیں اپنے مسائل جمہوری اندازمیں اور جمہوری اقدار کے مطابق طے کرنے کا راستہ نہیں ا پنائیں گے تب تک ہر کچھ عرصہ بعد کبھی ایک سیاسی حکومت اور کبھی دوسری حکومت متزلزل اور عوام سڑکوں پر ہو گی جس سے بچنا کسی او ر کے نہیں خود سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے جب تک اس کا متحدہ متفقہ اور مشترکہ فیصلہ نہیں ہوتا ملک میں استحکام اور جمہوریت دونوں ہی طفل پابجولاں ہی رہیں گی۔

مزید پڑھیں:  ''میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا''