یونان میں کشتیاں الٹنے کاواقعہ ، ماضی میں ہونے والے ان واقعات کے تسلسل کاحصہ سمجھا جاسکتا ہے جومختلف اوقات میں اسی طرح یورپ وغیرہ کے ساحلوں پر پیش آتے رہے ہیںاورجن میں مجموعی طور پر سینکڑوں افراد موت کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ادھرملک کے اندر ان کے گھروں میں صف ماتم برپا ہوتی رہی ہے ، تازہ واقعے میں بھی درجنوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ریسکیو آپریشن اگرچہ جاری ہے تاہم خبروںکے مطابق ڈوبنے والوں کے بچنے کی امیدیں کم ہی ہیں بچ جانے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ کئی پاکستانی ان کے سامنے سمندر میںڈوب چکے ہیں ، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کشتی کاانجن خراب تھا اور زندہ بچ جانے والوں کو قریب موجود کارگو شپ نے ان کو ریسکیو کیا یاد رہے کہ 13دسمبر کویونان کے جزیرہ کرپت کے جنوب میں کشتیاںالٹنے کاواقعہ پیش آیا جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق چار پاکستانی جاں بحق ہوئے جبکہ درجنوں دیگر لاپتہ ہو گئے ہیں ان کی تلاش کا کام جاری ہے ، ان میں سے بھی ایک کو بچا لیاگیاتھا تاہم پاکستان کے سفیر عامر آفتاب قریشی کے مطابق ریسکیو آپریشن جاری ہے لیکن ڈوبنے والوں کے بچنے کی امیدیں کم ہیں ، امر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح اوپر کی سطورمیں گزارش کی جا چکی ہے کہ مغربی ممالک کے ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش میں جاں سے گزرجانے والوں کی اب تک تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے جو بے چارے بہترمستقبل کی تلاش میں غیرقانونی طور پر انسانی سمگلرز کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اندھے سفر پر ان ایجنٹوں کولاکھوں روپے دے کر روانہ ہو جاتے ہیں باوجود یہ کہ اس قسم کے عبرتناک واقعات کی اخبارات اورمیڈیا پرخبریں آجاتی ہیں اور متعلقہ سرکاری حلقے وقتی طور پر تو الرٹ کی پوزیشن پرآجاتے ہیں اور بعض انسانی سمگلرز کو گرفتار بھی کرلیاجاتا ہے مگر آج تو کسی کو بھی عبرتناک انجام سے دو چار کئے جانے اور قانون کے اندر لوپ ہولز کی وجہ سے لوگ جلد ہی عدالتوں سے ریلیف حاصل کرکے دوبارہ اس انسانیت سوزدھندے میں لگ جاتے ہیں اگرچہ اس ضمن میں ایک اور شرمناک پہلو بھی اکثر سامنے آجاتا ہے اور وہ ہے ایسے افراد کو ان ممالک میں موجود انسانی سمگلروں کے ہینڈلرز وہاں پہنچتے ہی اغوا کرلیتے ہیں انہیں عقبوت خانوں میں ڈال کرملک کے اندر ان کے لواحقین سے مزید لاکھوں روپے ڈیمانڈ کرتے ہیں جواپنی جائیدادیں بیچ کر یا پھر قرضے اٹھا کراپنے پیاروں کی رہائی کا بندوبست کرنے پرمجبور ہوتے ہیں یہ ایک ایسا خطرناک جال ہے جس میں پھنس کر بہتر مستقبل کاخواب دیکھنے والے قدم قدم پر مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں مگر ایسے واقعات سے سبق سیکھنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا اور مزید لوگ انسانی سمگلنگ کے ان ایجنٹوں کے چنگل میں پھنس کر بدقسمتی کو آواز دیتے رہتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ، غربت، بھوک ، مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام روز بروز مشکلات کاشکار بنتے رہتے ہیں اور ہر روز نہ صرف قانونی بلکہ غیر قانونی ہرطرح سے لوگ ملک چھوڑنے کے لئے لائنوں میں لگے ہوتے ہیں ، سکلڈ لیبر کی توخیر مختلف ملکوں میں ڈیمانڈ موجود ہے جہاں وہ اپنے ہنر کی وجہ سے روزگار کے بہتر مواقع تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ بعض ملکوں میں جس طرح لوگ بھیک مانگنے کے دھندے میں ملوث ہوتے دیکھے جارہے ہیں اورپاکستان کی بدنامی کاباعث بن رہے ہیں ان کو وہاں سے واپس نکالے جانے کی خبریں بھی آرہی ہیں ، تاہم غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک عرب ریاستوں کے علاوہ مغربی ممالک میں جاے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ جووارداتیں ہوتی ہیں ان سے نہ تو اندرون ملک کچھ سبق سیکھا جاتا ہے نہ ہی حکومت اس کا کوئی تدارک کرنے کے لئے تیار ہے اور اس سلسلے میں قوانین کوسخت سے سخت کرکے بے روزگارنوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی ہے ، جولوگ ان اندھے اسفار پر روانہ ہوکر بالاخر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ان کے بارے میں کیایہ کہہ کر متعلقہ لوگوں کے لواحقین کو تسلی دی جا سکتی ہے کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا؟ ایک طرف ملک میں بے روزگاری ، غربت وغیرہ کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بنتی جارہی ہے دوسری حکومت اپنی پالیسیوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی اقدام کرنے پر توجہ نہیں دے رہی اور تیسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے صورتحال روز بروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے کسی بھی حکومت کومخالفین اطمینان سے کام کرنے نہیں دے رہی اور حکومت گرانے کے لئے سازشیں اور کوششیں گزشتہ کئی سال سے کرتے ہوئے ملک میں امن و سکون کی صورتحال کو مستحکم نہیںہونے دیا جاتا ، ان حالات کا بالاخر کیا نتیجہ نکلے گا اس حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ملک کے موجودہ حالات کاجائزہ لیا جائے تو جہاں مخالف سیاسی قوتیں ایک بار پھر حکومت گرانے کے درپے ہیں خود حکومت کے اپنے حلیف بھی اس کی راہ میںکانٹے بچھا کر اسے اطمینان سے کام نہیں کرنے دے رہی ہیں ،نتیجہ عدم استحکام ، عدم اطمینان ، بے روزگاری ، غربت کی لکیر کے نیچے عوام کی گہری کھائی میں گرنا اور دیگر مسائل کا شکار ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں تو پھرلوگ تلاش رزق میں غیر قانونی راستوں سے باہر جانے کی کوشش میں موت کو گلے لگانے کے سوا کیا کریں گے ؟۔