گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی ہے ۔ ایک ہرنی کو اپنے بچوں سمیت ندی عبور کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ ایک شریر بچہ چوکڑیاں بھرتے ہوئے ماں سے بہت آگے نکل جاتا ہے ۔ بیچ منجھدار کے اس کے پیچھے ایک مگر مچھ لگ جاتا ہے ۔ بچے کو یہ نہیں معلوم کہ موت اس کا تعاقب کر رہی ہے۔ ماں اپنے بچے کی زندگی خطرے میں دیکھ کر مگر مچھ اور بچے کے بیچ آ جاتی ہے ۔ مگر مچھ کو زیادہ اور فربا گوشت میسر آ جاتا ہے ۔ وہ بچے کا پیچھا چھوڑ کر ماں کی جانب لپکتا ہے ۔ چند ہی لمحوں میں ماں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہڑپ کر جاتا ہے ۔ بچہ اپنی ماں کے انجام سے بے خبر ندی عبور کر جاتا ہے ۔ ساحل پر پہنچتے ہی پھر چوکڑیاں بھرتا جنگل میں غائب ہو جاتا ہے ۔ یہ ماں کے ایثار اور قربانی کی عظیم مثال ہے۔ یہ ویڈیو دیکھ کر میرا دل پسیج گیا ۔ کیمرہ مین بھی پس منظر کمنٹری کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گیا ۔ ویڈیو کے ناظرین کی تعداد دیکھتے ہوئے اسے ٹاپ ٹرینڈ میں شامل کیا گیا ہے ۔
قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی تفسیر میں بتایا گیا کہ پانچ جانور فاسق ہیں۔ یہ جہاں بھی ملیں انہیں مار دیا جائے ۔ ان جانوروں میں کوا ، چیل، بچھو، چوہا اور کالا کتا شامل ہیں ۔ مادہ بچھو بچے پیدا کرنے کے بعد انہیں اپنی پیٹھ پر سوار کر لیتی ہے ۔ یہ بچے اپنی ماں کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے ہیں ۔ جب یہ جوان ہوتے ہیں تو ماں ملک عدم کو سدھار جاتی ہے ۔ یہ ایک فاسق اور موذی جانور کی ماں ہے۔ ماں کی مامتا کا یہ روپ کتنا قابلِ ستائش ہے ۔ پیلکن ریاست بہاولپور کا قومی پرندہ اور شناخت ہے۔ سٹیٹ سلوگن میں اس کی تصویر نمایاں ہے ۔ دیکھنے میں یہ اتنا جاذب نظر بھی نہیں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ انتہائی بھدا سا پرندہ ہے۔ اس کی چونچ انتہائی لمبی اور بد صورت ہوتی ہے ۔ اس کی ایک خاصیت نہایت اہم ہے۔ مادہ پیلکن قحط ، خشک سالی یا کسی اور مشکل وقت میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں رہنے دیتی۔ یہ لمبی تیز دھار چونچ سے اپنا سینہ چاک کرتی ہے ۔ اپنا گوشت نوچتی ہے ۔ نسل کی بقا کے لیے بچوں کو اپنا جسم کھلاتی ہے ۔ ماں کا یہ روپ کتنا پیارا اور قربانی سے بھرپور ہے ۔ اسی خاصیت کی بنا پر ریاست بہاولپور کے نوابوں نے اسے سٹیٹ سلوگن میں نمایاں کیا ہے ۔
یہ 2007 کی بات ہے ۔ جنرل پرویز مشرف صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں۔ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ہیں۔ صدر مملکت نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو معطل کر دیا ہے ۔ وکلا برادری نے اس حکم نامے کو ماننے سے انکار کر کے علم بغاوت بلند کیا ۔ سارے ملک کے وکلا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے ۔ عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز کر دیا گیا ۔ ملک کے کونے کونے میں ریلیاں نکالی گئیں ۔ جلسے ہوتے رہے ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اس تحریک کے روح رواں تھے ۔ انہوں نے چیف جسٹس صاحب کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ جو در حقیقت عدلیہ بحالی تحریک کا اگلا مورچہ تھا۔ چیف جسٹس صاحب کے قافلے نے ملک کی تقریبا ساری بار کونسلوں سے خطاب کیا۔ ہر خطاب میں رول آف لا کی بات کی گئی ۔ آئین اور قانون کی بالادستی کا زکر کیا گیا ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے دورانِ تحریک ایک آزاد نظم بھی لکھی ۔ یہ نظم وہ ہر موقع پر بڑے جوش و خروش سے پڑھتے تھے ۔ یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ ہر عام و خاص کو ازبر ہو گئی ۔ اس نظم کا لب لباب یہ تھا کہ ریاست کی حیثیت ماں جیسی ہوتی ہے ۔ اگر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہو تو ریاست بحیثیت ماں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گی ۔ ڈکٹیٹر وکلا کی تحریک کے سامنے بے بس ہو گیا ۔ چیف جسٹس بحال ہو گئے۔ بھرپور کوشش کے باوجود اپنا اقتدار نہ بچا سکا ۔ بقول شخصے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو گئی ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن والی بات سچ ثابت نہ ہوئی ۔ ریاست ماں کا کردار ادا کرنے میں یکسر ناکام رہی۔ اس ریاست نے عوام کو کبھی بھی اپنی سگی اولاد نہ سمجھا ۔ عوام کو دو طبقات میں تقسیم کر دیا ۔ ایک برہمن طبقہ جسے ہم ایلیٹ کلاس کہتے ہیں ۔ بعض لوگ انہیں اشرف المخلوقات بھی کہتے ہیں ۔ دوسری شودر یعنی پسا ہوا طبقہ ۔ پہلے طبقے کے پاس زندگی کی ہر سہولت موجود ہے۔ بہترین کھانا پینا ، زمین جائیداد ، لگژری گاڑیاں ، بنگلہ ، کوٹھی ، نوکر چاکر ، ایک نمبر تعلیمی ادارے ، اعلی سرکاری ملازمتیں اور ممبریاں ۔ دوسرے طبقے کے پاس بھوک ننگ افلاس ۔ نہ پینے کا صاف پانی ، نہ گیس ، نہ بجلی نہ تعلیم و تربیت کا کوئی ڈھنگ کا سکول ، نہ نوکری اور نہ روز گار۔ پہلا طبقہ شام کو اس لیے چہل قدمی کرتا ہے کہ کھایا ہوا ہضم کر سکے۔ دوسرا طبقہ دن رات اس لیے دوڑتا ہے کہ سوکھی روٹی کے دو نوالے بھوکے پیٹ میں ڈال سکے۔ دونوں طبقے دوڑ رہے ہیں لیکن الگ الگ مقصد کے لیے ۔ شودر طبقے کا پرسان حال نہیں ۔ اگر بیمار پڑ جائے تو کوئی ہسپتال نہیں۔ اگر خوش قسمتی سے آس پاس کوئی سرکاری ہسپتال موجود ہو تو علاج معالجہ کی سکت نہیں ۔ ایک خالی پیٹ بھوک سے نڈھال بچے نے ڈاکٹر سے کہا کہ کوئی ایسی گولی دو کہ مجھے بھوک ہی نہ لگے ۔ ریاست نے اس ساری کلاس کو آٹے کی ایک مفت بوری کے پیچھے لگا دیا ۔ بوری کوئی چالیس کلو کی نہیں بلکہ دس کلو کا مٹی ملا چوکر۔ اس آٹے کو کوئی جانور بھی نہیں کھاتا۔ ایک بوری کے حصول کے لیے شودروں کی عزت نفس بری طرح مجروح کی جاتی رہی ۔ لمبی لمبی قطاریں اور نہ ختم ہونے والا انتظار ۔ دھکم پیل سے کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ماہ صیام میں بہت سے لوگوں کو افطاری کے بعد بھی روزہ رکھنا پڑا ہے ۔ نہ جانے ماں ریاست کہاں گئ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن جھوٹ بولتا تھا۔ لگتا ہے کہ اس نے معصوم ہرنی والی ویڈیو نہیں دیکھی ۔ کاش اس نے معصوم ہرنی کے ایثار و قربانی کو دیکھا ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قرآن مجید میں موذی جانور بارے میں بھی نہیں پڑھا جسے دیکھتے ہی کچلنے کا کہا گیا ہے ۔ اس جانور کی ماں بھی اپنے بچوں کو پیٹھ پر سوار کر کے اپنا گوشت کھلاتی ہے ۔ سنا ہے بیرسٹر اعتزاز احسن تاریخ دان ہے ۔ انہوں نے سندھ ساگر اور قیام پاکستان نامی ایک کتاب بھی لکھی ہے ۔ لیکن وہ تاریخ بہاولپور پینگوئن کی مامتا کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا۔ اس ساری صورتحال میں مجھے تو مشہور وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابقہ صدر علی احمد کرد کی بات یاد آتی ہے کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ ہم نے ریاست کو ماں کا درجہ دیا ہے ۔ یہ ماں اب پچہتر سال کی ہو گئی ہے۔ اس عمر کی ماں بانجھ پن کا شکار ہو گئی ہے۔ اب نہ تو یہ بچے پیدا کر سکتی ہے اور نہ ہی پال سکتی ہے ۔ ان بچوں کا رب راکھا۔
Load/Hide Comments