خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ضلع کرم کی مرکزی شاہراہیں کھولنے پر بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھاری اسلحے کے سرینڈر سے مشروط کرنا بے بسی کا اظہار ہے نجی ٹی وی کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے واضح کیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع کرم میں بھاری اسلحہ سرینڈر کئے بغیر مرکزی شاہراہ کو نہیں کھولا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی رہنمائوں سے بھی درخواست ہے کہ اسلحہ جمع کرانے اور امن و امان کے مسئلے کی ذمہ داری لیتے ہوئے اسلحہ کے سرنڈر کے عمل میں حکومت کا ساتھ دیں تاکہ بحران کا پائیدار حل نکل سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بھاری ہتھیاروں جیسے راکٹ لانچرز اور اینٹی ایئر کرافٹ گنز کے استعمال کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اسلحے کی موجودگی سے خون ریزی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگجوں کے بنکرز کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔مہبم ا مر یہ ہے کہ موصوف کا مطالبہ جن سے ہے ان کا نام نہیںلیاگیا امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے صوبائی حکومت مشکلات کی صورت میں قانون کے مطابق مدد طلب کرسکتی ہے جس کے بعد ہی سیکورٹی کے ذمہ دار ادارے صوبائی حکومت کی مدد کو آسکتی ہیں بہرحال اس سے قطع نظر جس طرح علاقے میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات باربار پیش آتے ہیں اور ان کا دورانیہ طویل اور شدت دو ممالک کے درمیان زمینی جنگ سے کم نہیں ہوتی بھاری ا سلحہ کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے ایسے میں علاقے کو بھاری ا سلحہ سے پاک کرکے آئندہ علاقے میں اسلحہ کی سپلائی کی مکمل روک تھام ہی مستقل قیام امن کا پہلا قدم ہوسکتا ہے اس کے بعد ہی پرامن آمدورفت اور شاہراہوں کو کھولنا سودمند ہوسکتا ہے اس حوالے حکومت جرگہ اور مذاکرات کا سہاا لیتی ہے یاپھرطاقت کا استعمال کیاجاتا ہے اس کا فیصلہ اور عملدرآمدبلاتاخیر ہونا چاہئے تاکہ علاقے کے محصور عوام کی آزادی تحفظ زندگی کے ساتھ لوٹائی جاسکے ۔ اس امر کا ادراک جتنا جلدہو بہتر ہوگا کہ ضلع کرم بالخصوص پاراچنار شہر میں انسانی بحران خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے جو کہ فوری طور پر ریاستی مداخلت کا متقاضی ہے اب 70دنوں سے زیادہ عرصے سے، ضلع کی مرکزی سڑک جو اسے پشاور سے ملاتی ہے، بند ہے، جس سے پاراچنار ایک مجازی جزیرے میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں کے لئے تمام زمینی راستہ بند ہیں اور یہاں کے مکین اچانک ایسے واقعے کا شکار ہوتے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا ستم بالائے ستم اب یہ علاقہ صرف ہوائی جہاز کے ذریعے قابل رسائی ہے۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ یہ خطہ طویل عرصے سے زمینی تنازعات پر قبائلی تنائو کی لپیٹ میں ہے، جو کبھی کبھار فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی بھڑک اٹھتا ہے۔یہ اس پیچیدہ تنازعے کی لپیٹ میں آنے والے معصوم شہریوں کے دکھوں کااندازہ ہی کیا جا سکتا ہے پاراچنار سے آنے والی اطلاعات حالات کی ایک بھیانک تصویر پیش کر رہی ہیں۔ مقامی ہسپتال کو ادویات اور آکسیجن کی شدید قلت کا سامنا ہے صفر درجہ حرارت میں نمونیا میں مبتلا بچوں کو مناسب علاج تک رسائی نہیں ہو رہی ہے اور وہ موت کے منہ جارہے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کو انسولین کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ کینسر کے مریض ضلع سے باہر سہولیات تک پہنچنے سے محروم ہیں سڑکیں بند ہونے سے خوراک، ایندھن اور دیگر بنیادی ضروریات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اس سخت سردی میں خاندانوں کے پاس سوختنی لکڑی اور ایندھن دستیاب نہیں اگرچہ نجی تنظیموں نے ایئر ایمبولینسوں کے ذریعے ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے، لیکن ان کی کوششیں ریاست کی ذمہ داری کے متبادل نہیں ہو سکتیں۔ ادویات لے جانے والے حکومت کے جٹ پٹ ہیلی کاپٹر مشن، اگرچہ خوش آئند ہیں مگراس کے باوجود حکومت، شہریوں کی تکالیف کو دور کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔جب شہریوں کی زندگیوں کا توازن بگڑ جائے تو ریاست کو سب کچھ چھوڑ کر فیصلہ کن انداز میں کام کرنا ہو تا ہے جس کا شدیدفقدان نظر آتا ہے ہمارے تئیں سب سے پہلے، ادویات، خوراک اور ضروری اشیا کی باقاعدہ فراہمی لوگوں تک پہنچنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاراچنار کی بے ربطگی کو ختم کرنے کے لیے متبادل راستوں کا قیام ضروری ہے۔ مزید برآں، جرگوں کے ذریعے امن کی جاری کوششوں کو مضبوط ریاستی حمایت کی ضرورت ہے تاکہ تنازعات کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس طرح کی مشکلات کو جاری رکھنے کی اجازت دینا شہریوں کی فلاح و بہبود کے اس کے بنیادی فرضکی ادائیگی میں ناکامی اور اس کی نفی ہے۔ کرم کے لوگ اپنی ہی سرزمین میں جغرافیہ اور قبائلی تنازعات کے قیدی بننے سے بہتر کے مستحق ہیں۔ان کو اس صورتحال سے نکالنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے جس میں مزید ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں۔