ایک مہم کے بعد دوسری مہم

سرکاری اندازے کے مطابق پشاور کی سڑکوں پر ڈیڑھ ہزار سے زائد پیشہ ور گداگرموجود ہیں لیکن ان اعداد و شمار سے اتفاق ممکن نہیں کیونکہ معروضی صورتحال اس کے برعکس ہے بہرحال اعداد و شمار کے چکر میں پڑے بغیر احسن اقدام یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے اگلے ہفتے سے گداگروں کے خلاف بھی مہم شروع کرنے کی منظوری دیدی ہے ۔واضح رہے کہ ڈرگ فری پشاور کی طرز پر پشاور کو گداگروں سے بھی پاک کرنے کے لئے کمشنر پشاور ریاض محسود کی جانب سے خصوصی ٹاسک متعلقہ اداروں کے سپرد کیا گیا تھا جس کے بعدپشاور میں ایک ہزار600سے زائد پیشہ ور گداگروں کی نشاندہی کرلی گئی ہے جن کو تحویل میں لے کر ان کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے دیگر اضلاع کے پیشہ ور گداگروں کو صوبہ بدر کیا جائے گایہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ گداگروں کو استعمال کرنے والے مافیا ٹھیکیداروں کو بھی جلد گرفتار کر کے ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی ۔منشیات کے عادی افراد اور گداگروں کے خلاف حکومتی مہم ایک ایسی نظر آنے والی حقیقت ہے جس میں ڈنگ ٹپائو کی گنجائش نہیں اور نہ ہی موثر کارروائی کی صورت میں اس سے انکارکی گنجائش ہوتی ہے بہرحال کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے کے مقولے کا انتخاب اچھا فیصلہ ہے جہاں تک نشے کے عادی افراد کے خلاف مہم کا تعلق ہے اس ضمن میں کم از کم اس درجے کی کارروائی ضرور نظر آتی ہے کہ شہر میں اب نشے کے عادی افراد کی ٹولیاں نظر نہیں آتیںالبتہ تھانہ تاتارا کی حدود میں گداگروں کی ایک ٹولی دیکھی گئی جس سے اس مہم کے سرد پڑتے ہی منشیات کے عادی افراد کی واپسی کے خدشات کے اظہار کو بلاوجہ قرار نہیں دیا جا سکتا اس صورتحال سے قطع نظر اس درجے ہی کی کارروائی پیشہ ور گداگرں جس میں گداگروںکے روپ میں چوروں کی ٹولیوں کے خلاف اقدامات عوام کے لئے اطمینان کے درجے کی بات ہونی چاہئے نشے کے عادی افراد فرار اختیار کرنے میں سست واقع ہوتے ہیں اس لئے ان کے خلاف کارروائی کے برعکس سن گن ملتے ہی روپوش ہونے والے گداگروں کے خلاف کارروائی نسبتاً مشکل ہو گی ابھی کارروائی کا آغاز باقی ہے کہ فٹ پاتھوں پر بیٹھے اور گھوم پھر کربھیک مانگنے والوں کی تعداد میں خاصی کمی نظرآتی ہے اور وہ غائب ہونا شروع ہوگئے ہیں انتظامیہ کااصل امتحان منظم گداگری کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہو گا کیونکہ ان کی سرپرستی صرف بااثرافراد ہی نہیں کرتے بعض کو ایسے نیٹ ورک کی سرپرستی بھی ہوتی ہے جو ان کو تحفظ فراہم کرکے ان سے کام لیتے ہیں اس کے بدلے نہ صرف ان کو تحفظ دیا جاتا ہے بلکہ ان کو جھگیوں کو جانے والی بجلی کی لائن کی بھی حفاظت کی ذمہ داری لی جاتی ہے بہرحال مشکلات ہر جگہ ہوتی ہیں عزم کے ساتھ اور ایمانداری سے کام ہو تو نتائج نظر آہی جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  قیادت کا بحران