طویل عرصے کا اتحادی امریکہ پاکستان کے میزائل پروگرام میں دور مار میزائلوں کی ٹیکنالوجی میں تیزی سے کامیابی کے حصول کی بناء پر بالآخر حلیف کی بجائے حریف کے طور پر دیکھنے لگا ہے، امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان میزائلوں کی رینج میں ان کا بھی آ نا ان کیلئے تشویش کا باعث امر ہے ،امریکہ کو خاص طور پر پاکستان کی اس صلاحیت سے تشویش ہے ،پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ ستمبر2024میں امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیا گیا تھا اس میں میڈیم رینج یا درمیانی فاصلے تک مار کرنیوالے بلیسٹک میزائل شاہین تھری (رینج 2750کلومیٹر) اور ابابیل ( رینج2200 کلومیٹر) شامل ہیں جو ملٹی پل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی میزائل کہلاتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحیتوں والے میزائل ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پاکستان کے پاس جنوبی ایشیاء سے باہر بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت آ جائیگی، اس میں امریکہ بھی شامل ہے اور اس چیز سے پاکستان کے ارادوں پر امریکہ کو تحفظات ہیں، ایسا کرتے ہوئے امریکہ یہ فراموش کر تا ہے کہ اس صلاحیت کے حصول پر وہ صرف پاکستان ہی پر معترض ہیں ان کو بھارت اور اسرائیل سمیت دیگر ممالک کی مساعی پر کوئی اعتراض نہیں ،دفاعی شعبے میں پاکستان کی راہ میں رکا وٹیں کھڑی کرنے کا یہ پہلا امریکی اقدام نہیں جس کے تحت امریکہ نے تازہ قدم اٹھایا ہے جس کے تحت امریکہ نے پاکستان کے نیو کلیئر ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چار اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں جن میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنیوالا ایک سرکاری ادارہ بھی شامل ہے۔ محولہ خدشات کے پیش نظر ایسا نظر آ تا ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام کو محدود کرنیکی کوشش کی جائے، اس ضمن میںامریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دو دن پہلے ہی بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چار اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، ان میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنیوالا سرکاری ادارہ نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) بھی شامل ہے۔ ردعمل میں پاکستان نے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) اور3 تجارتی اداروں پر امریکی پابندیوں کومتعصبانہ قرار دیدیا تھا۔ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کا تحفظ ہے، پابندیوں کی تازہ ترین قسط امن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے، اس کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔ اس طرح کی پالیسیاں ہمارے خطے اور اس سے باہر کے اسٹریٹجک استحکام کیلئے خطرناک مضمرات رکھتی ہیں۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا تھا کہ اسٹریٹجک پروگرام پر پاکستانی عوام کی مقدس امانت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے، ماضی میں بھی تجارتی اداروں پر پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔اس ساری صورتحال کو اسرائیل اور شام واردن ویمن سمیت محولہ خطے کے حالات کے تناظر میں دیکھیں اور احادیث مبارکہ میں اس خطے اور ہمارے خطے کے حوالے سے جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں اس پر غور کیا جائے تو حالات تیزی سے اس طرف جا رہی ہیں بہرحال پاکستان کا اپنے تمام تر معاشی اور داخلی مشکلات کے باوجود دفاعی شعبے میں اس قدر قابل ذکر پیشرفت مایوسی کی اس فضا میں امید کی کرن ہے، جہاں تک پابندیاں عائد کر نے کا معاملہ ہے یہ نئی بات نہیں ایٹمی دھما کوں کا وقت ہو یا دیگر مواقع پاکستان کو اس طرح کے حالات کا سامنا رہا ہے جن سے وہ سرخرو ہوکے نکلا ہے پابندیوں کے باوجود پاکستان نے جس طرح ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے آگے بڑھا یا اسی طرح توقع ہے کہ اس مشکل کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جائیگا اور دفاعی صلاحیتوں کے حصول میں کوئی دبا قبول نہیں کیا جا ئیگا پاکستان جس طرح تمام تر داخلی حالات بیرونی دباؤ اور سنگین معاشی حالات کا شکار ہو نے کے باوجود شدید طوفانی تھپیڑوں کے سامنے جس استقامت سے کھڑا ہے یہ بلا وجہ نہیں اس میں بطور قوم ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ ایک ہی ذات باری تعالیٰ کی قدرت اور ان کی خصوصی مہر بانی ہے کہ”میں تو ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے” والی صورتحال ہے ،ان حالات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ خطہ واقعی ہی ان حالات کیلئے خود بخود تیار ہو رہا ہے جس کی بشارت دی جا چکی ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس تک پہنچتے پہنچتے نجانے کیا کچھ گزرے ،بطور قوم اس کی تیاری کی جانی چاہئے اور امت مسلمہ کو بھی پاکستان کی مدد میں تغافل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔