قابلِ توجہ مسئلہ

صوبائی دارالحکومت پشاور میں بارشوں کے نہ ہونے اور خشک سردی کے باعث پیدا شدہ صورتحال میں تو بارش سے صورت حال میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن مشکل صورتحال آ لودگی میں اضافی سے پیدا شدہ مسئلہ ہے جو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔صورتحال اتنی ہی تشویشناک ہے کہ پشاور اور لاہور جیسے شہروں میں جہاں آلودگی کی سطح زیادہ ہے ایک اندازے کے مطابق اس کے باعث متوقع عمر پانچ سال سے کم ہو جاتی ہے۔ سب سے زیادہ آلودہ علاقوں میں رہنے والے لوگ ایسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جو کم آلودہ علاقوں میں رہنے والوں کی نسبت چھ گنا زیادہ آلودہ ہے۔یہ صورت حال ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن بجائے کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے اس کی بجائے اس موضوع کو بڑی حد تک لاتعلقی کا سامنا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور بجلی کی پیداوار کیلئے فوسل فیول پر انحصار ملک کی آلودگی کے بحران میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو چند ہی سالوں میں گاڑیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ پاکستان اور پڑوسی ممالک میں جیواشم ایندھن سے بجلی کی پیداوار1998ء سے2017ء تک تین گنا بڑھ گئی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال کا جائزہ لے اور اپنے شہریوں کے مستقبل کے تحفظ کیلئے طویل المدتی پالیسی وضع کرے۔یاد رہے کہ تاریخی شہلا ضیاء کیس میں سپریم کورٹ نے صحت مند ماحول کے حق کو تمام شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کا حصہ قرار دیا ہے۔جبکہ ریاست کی جانب سے زیادہ آلودگی کے مانیٹر نصب کرنے اور زیادہ آلودگی کے دوران کارخانوں کو بند کرنے جیسے اقدامات جیسے عوامل کو ایک وسیع اور زیادہ جامع حکمت عملی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جس میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینا، صنعتوں کی کلینر ٹیکنالوجیز کی طرف منتقلی اور اخراج کے سخت معیارات کو نافذ کرنا شامل ہے۔

مزید پڑھیں:  پی آئی اے اڑان بھرتے ہی پراپیگنڈے کی زد میں