خیبرپختونخوا حکومت نے ضلع کرم کو آفت زدہ قرار دے کر علاقہ میں ریلیف ایمرجنسی تو نافذ کردی ہے لیکن ابھی اس پر عملدرآمد اور حالات کو کشیدگی سے نکالنے کے لئے غیر روایتی اور سخت اقدامات کی ضرورت بدستور باقی ہے ابھی تک صرف اس حد تک ہی کام ہوسکا ہے کہ کرم کے مسئلہ کے پائیدار حل کے لئے متعدد جرگے منعقد کیے گئے کرم میں ادویات کی کمی دور کرنیکے لئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے10ٹن ادویات پہنچائی گئیں، غذائی اجناس کی دستیابی کے لئے رعایتی نرخوں پر گندم فراہم کی جارہی ہے اور کرم میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے ازالہ کے لئے ادائیگیاں کی جاچکی ہیں یہ صرف ہنگامی اقدامات ہی کے زمرے میں آتے ہیں پارا چنار روڈ کو محفوظ بنانے کے لئے اسپیشل پولیس فورس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، مجموعی طور پر399اہلکار بھرتی کئے جائیں گے جبکہ سڑک کو محفوظ بنانے پوسٹیں قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد سڑک کھولی جائے گی۔ بریفنگ کے مطابق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے سوشل میڈیا اکائونٹس کو بند کرنے کے لئے ایف آئی اے کا سیل قائم کیا جائے گا، اپیکس کمیٹی اجلاس میں یکم فروری تک غیرقانونی ہتھیار جمع کرانے کا فیصلہ کیا گیا، قانونی ہتھیاروں کے لائسنس کے اجرا کے لئے محکمہ داخلہ میں ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ یکم فروری سے کرم کے علاقے میں قائم مورچوں کو بھی مسمار کیا جائے گا۔ کابینہ نے کرم کو آفت زدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے ریلیف ایمرجنسی نافذ کرنے کی منظوری دے دی۔اگرچہ صوبائی حکومت پوری تندہی سے ضلع کرم کے بگڑے حالات کو پٹڑی پرلانے کی مساعی میں مصروف ہے لیکن جملہ مساعی کے باوجود حالات کی بجائے سنگینی میں کمی نظر آتی حالات جوں کے توں ہی ہیں متاثرہ علاقوں سے صحیح معلومات کا بھی فقدان ہونے کے باعث حالات کا درست اندازہ لگانا مشکل امر ہے لیکن بہرحال زمینی راستوں کی بدستور بندش اور فضائی راستے سے ادویات کی فراہمی از خوداس امر پر دال ہے کہ حالات میں چنداں بہتری نہیں آئی فضائی راستے سے ضروری ادویات کی فراہمی کے بعد ان ادویات کو متاثرہ علاقوں او ر مریضوں تک پہنچانے کے کیا انتظامات موجود ہیں اس کا بھی علم نہ ہوسکا کیونکہ ادویات صرف ہوائی اڈے پر اتارنا تو کافی نہیں ہو سکتا انسانی احتیاج صرف ادویات تک ہی محدود نہیں اس سخت سرد موسم میں خوراک اور ایندھن جو ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہیںکاکیا بندوبست ہے ظاہر ہے ان حالات میں شدید قلت اور ناپیدگی کے ساتھ ساتھ دستیاب سامان کا مہنگا ہونے کے باعث دسترس سے باہر ہونا بھی مکینوں کی بڑی مشکل ہوگی ۔ ضلع کرم میں جہاں انسانی جان کوبھاری اسلحہ اور ہتھیاروں سے ہی نہیں وہاں مکینوں کوبھی ایک دوسرے سے سخت خوف اور جان کا خطرہ لاحق ہے مستزاد اس سے پیدا شدہ صورتحال تو جاں لیوا ہی ہوناہے ایسے میں وہاں انسانی زندگی اور بقاء کو درپیش خطرات حکومت کے لئے بطور خاص پریشانی و مشکلات کاباعث ہونا فطری امر ہے اس سے بھی بڑی مشکل حکومت اور انتظامیہ کی بے بسی ہے جو ابھی تک امن دشمن فریقوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی بجائے ان کو منانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں جہاں حکومتی عملداری کی کمزوری کا یہ عالم ہووہاں من مانی اور ہر قیمت پر اپنی بات منوانے ہی کارویہ سامنے آئے گا۔بہرحال ایک جانب جہاں حکومت علاقے کو آفت زدہ قرار دے کرایمرجنسی کے نفاذ اور دیگر اقدامات پرغور کر رہی ہے وہاں دوسری جانب لوئر کرم میںپاڑہ چنار کے دو مسافروں کو اعتبار میں لا کر دھوکے سے قتل کرنے کا واقعہ کشیدگی پر مبنی حالات کو ہوا دینے کا باعث بننا فطری امر ہے مقتولین کو جس بے دردی سے قتل کیاگیا اس کے ذمہ دار کسی رو رعایت کے مستحق نہیں چونکہ یہ کسی تصادم اور فساد کا موقع نہ تھا اس لئے یہ واقعہ یکطرفہ تشدد ہے ایسے عناصر کے حوالے سے جرگہ اراکین اور حکومت کو زیادہ سخت اقدامات پر اتفاق کرنا ہو گا اور ذمہ دار عناصر کو اس کی کڑی سزا ملنے پر ہی اس طرح کے واقعات کے امکانات میں کمی لائی جا سکے گی کرم کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جس سے کوئی مزید انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے جس کے لئے حکومت اور جرگہ اراکین کو جلد ہی کسی ٹھوس اقدام تک پہنچنا ہو گا۔عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے سے وعدے کیے گئے اقدامات کو نافذ کرنے میں یہ رکاوٹ اور ناکامی نے خطے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔بنکروں کو ختم کرنے اور خطے کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کال بلاشبہ طویل مدتی امن کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ تاہم، تخفیف اسلحہ ایک پیچیدہ کام ہے غور و خوض کا وقت گزر چکا ہے۔ انسانی امداد اور طبی سامان کی روانی کو بحال کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی فوری تعیناتی ضروری ہے۔ کرم میں تشدد کا سلسلہ صرف عارضی جنگ بندی سے نہیں توڑا جا سکتا۔ طویل المدت امن کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مستقل امن کے حصول کے لیے کام کرنا چاہئے۔