پی ٹی آئی کی تیسری حکومت اور احتساب

ابھی چند ہفتے پہلے میں ”کرپشن کا عفریت اور آئی ایم ایف” کے عنوان سے اس موضوع پر کالم لکھ چکاہوں ۔ ملک عزیز میں بدعنوانی اس قدر ہے کہ اس موضوع پر باربارلکھنے کی ضرورت گاہے بگاہے پڑتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کرپشن کے خلاف کام کرنے والے ادارے لوگوں کی آگاہی کے لئے کام کرتے رہتے ہیں ابھی پچھلے ہفتے قومی احتساب بیورو (نیب) نے کرپشن کے خلاف آگاہی کی مہم چلائی اور ملک بھر کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا بلکہ میرے شہر پشاور کے مختلف علاقوں میں دیواروں اور کھمبوں پر بڑے بڑے بینر آویزاں کئے تھے جس میں عام عوام کوبدعنوانی سے بچنے کی ہدایات اور آگاہی دی گئی۔ نیب ایک خودمختار اور آئینی وفاقی ادارہ ہے ۔ نیب کا کام بدعنوانی کے خلاف کوشش کرنا ہے اور ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے خلا ف اقدامات کرناہے ۔ نیب کا مرکزی دفتر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں میں بھی نیب کے صوبائی دفاتر ہیں۔ قومی احتساب بیورو اپنے قیام 1999ء سے لے کر اب تک سینکڑوں بدعنوان لوگوں کے خلاف کارروائی کرچکاہے اور ان برسوں میں اربوں روپے نکلواچکاہے ۔ یہ رقم قومی خزانہ میں جمع کروائی جاچکی ہے۔ یہ ادارہ بنکوں سے قرضے لے کر ہڑپ کرجانے والے بدعنوان لوگوں سے بھی 119ارب روپے نکلواچکاہے اور اس میں سے آدھی رقم بنکوں کی تنظیم نو کے لئے خرچ کرچکاہے ۔ یاد رہے نیب کے بننے سے پہلے پاکستان میںانسداد رشوت ستانی کا ادارہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) پہلے سے موجود ہیںان اداروں کا کام بھی نیب ہی کی طرح ہے تاہم نیب نے ایف آئی اے سے اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔
ہمارے پیارے صوبہ خیبر پختونخوا میں جب 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کی پہلی حکومت بنی ۔ تھی تو یہ مخلوط حکومت کیونکہ اس میں جماعت اسلامی پاکستان ، صوابی محاذ اور آفتاب احمد خان کی قومی وطن پارٹی کی شراکت تھی۔پیراشوٹر ہی سہی وزیر اعلیٰ پاکستان تحریک انصاف کا تھا لہٰذا پارٹی نے اپنے ایجنڈا پر عمل پیراہوتے ہوئے بدعنوانی کے لئے ایک احتساب کمیشن ایکٹ کے حوالے سے ایک قانون پاس کیا تھا تاہم اس قانون کو چار سال بعد خودپاکستان تحریک انصاف کی اپنی ہی حکومت نے ختم کردی۔ اس وقت کے پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے اپنے ہی لگائے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سے اختلافات شروع ہوگئے تو نتیجتاًاس ادارہ کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ بعد ازاں ڈی جی کے اختیارات مختلف بورڈز میں تقسیم کردیئے گئے لیکن ان بورڈز کو بھی خودمختار نہیں کیاگیا بلکہ انہیں کسی بھی کاروائی کرنے سے پہلے وزیر اعلیٰ سے اجازت لینے کاپابند بنایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی دوسری حکومت آئی جو کہ ایک تو بلا شرکت غیرے تھی بلکہ طرہ یہ کہ دوتہائی اکثریت والی حکومت تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد ان کے نئے وزیر اعلیٰ محمود خان نے خیبر پختونخوا احتساب کمیشن دوبارہ بحال کردیا کمیشن نے بھرپور طریقے سے کام بھی شروع کیا اس ادارہ نے صوبے کے خزانے سے اربوں روپے خرچ کئے۔ تحریک انصاف پارٹی کارکنوںکے ساتھ ساتھ صوبہ کے دیگر عوام کو بھی اس سے بہت امیدیں تھیں لیکن افسوس صد افسوس اب کی بار بھی یہ ادارہ بازیابی ایک آنے کی بھی نہیں کرسکا۔ کیونکہ اب کی بار بھی تحریک انصاف کی حکومت نے درحقیقت اس ادارہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہی رکھے۔ اب کی بار بھی اس ادارہ کو کسی بھی سرکاری افسر سے تفتیش سے پہلے انہیں وزیر اعلیٰ سے اجازت لینی پڑتی تھی اور اگر تفتیش کے بعد کسی بھی سرکاری افسر کو گرفتار کرنے کی نوبت آجاتی تو اس کے لئے پھر الگ سے وزیر اعلیٰ کی ایک بارپھر اجازت ضروری ہے یوں پاکستان تحریک انصاف کے دوسرے دور حکومت میں بھی یہ ادارہ اربوں روپے ڈکار گیا لیکن کارکردگی صفر رہی۔
ہمارے صوبہ خیبر پختونخوامیں تیسری دفعہ حکومت ملنے کے بعد بھی خود پاکستان تحریک انصاف کے اپنے ہی لوگ اپنی ہی حکومت کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگارہے ہیں اس کی تازہ ترین اطلاع ہے کہ تورغر سے منتخب رکن اسمبلی نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں کھڑے ہوکر اجلاس کے دوران الزامات لگائے ہیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران صرف اس کے ضلع میں تین ارب روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے ۔ متعلقہ رکن اسمبلی نے کہاہے کہ اگر کوئی کمیشن بنتاہے یا کسی ادارے کو کہا جاتاہے کہ وہ تحقیق کرے تو وہ سارے ثبوت انہیں دے سکتے ہیں۔ بازگشت تو یہ بھی ہے کہ صوبہ میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ ہائوس میں اس بات پر بھی اعتراضات اٹھ رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اپنے قریبی عزیز صوبائی امور میںمداخلت کررہے ہیں۔مگر بدعنوانی روکنے یا ان کے خلاف کارروائی کرنے والے اداروں کے اہلکار وزیر اعلیٰ کے بھائی کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے ہچکچارہے ہیں یا ڈر کے مارے نام ہی نہیں لے رہے۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف اسی نعرہ کے ساتھ ہر دفعہ صوبہ میں جیتی رہی ہے کہ یہ لوگ کرپٹ اور بدعنوان سیاست دانوں کے پیٹ سے عوام کی لوٹی ہوئی رقم واپس دلوائیں گے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں سے نکلوانا تو دور خود تحریک انصاف کے اپنے وزراء اور ارکان اسمبلی بری طرح کرپشن کررہے ہیں۔ یہی حال رہاتو کرپشن کے خلاف ووٹ لینے والی پاکستان تحریک انصاف سے اس کے اپنے کارکن نالاں ہوتے ہوتے ایک دن اپنی ہی حکومت کے خلاف دھرنا دینے پر مجبور ہوجائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  صدا بہ صحرا فریاد