ویب ڈیسک: حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کی اسرائیلی سازی کش کہانی منظر عام پر آگئی ہے ۔
اسماعیل ہنیہ کو ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف برداری کے بعد تہران کے انتہائی حساس علاقے میں واقع سرکاری گیسٹ ہاؤس میں پراسرار دھماکے میں قتل کردیا گیا تھا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس پراسرار قتل کی ذمہ داری ایران اور حماس نے اسرائیل پر عائد کی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے نہ تو کبھی تردید کی گئی اور نہ ہی تصدیق کی گئی تھی۔
تاہم اب چند روز قبل اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے بتایا کہ ان کا ملک اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کے پیچھے تھا۔
اس بیان کے بعد اسرائیلی میڈیا میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور اس میں تاخیر سے متعلق مندرجات منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
اسرائیل میڈیا کے بقول ایران کو مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے نئے صدر کی حلف برداری تک آپریشن میں تاخیر کی گئی ورنہ اسماعیل ہنیہ کو تقریب سے پہلے بھی نشانہ بنایا جا سکا تھا۔
خیال رہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد پاسداران انقلاب نے ابتدائی طور پر روحانی پیشوا خامنہ ای کو غلط بتایا کہ حماس کے سربراہ کی موت اسرائیلی میزائل لگنے سے ہوئی تھی۔
اسرائیلی میڈیا کے بقول اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا فیصلہ حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کو کیے گئے حملے کے بعد کیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ قطر میں مقیم تھے لیکن انھیں وہاں قتل کرنے سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
اس لیے اسماعیل ہنیہ کو کہاں مارا جائے اس کے لیے ترکیہ، روس اور ایران کے آپشنز تھے جہاں حماس رہنما اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔
تاہم ترکیہ میں کی گئی ایسی کسی کارروائی پر اسرائیل کو صدر رجب طیب اردگان کی طرف سے شدید ردعمل کا خدشہ تھا اور اسی طرح اسرائی، روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے بقول اس لیے ایران کو سب سے موزوں آپشن کے طور پر منتخب کیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ ایران میں بار بار پاسداران انقلاب کے گیسٹ ہاس میں ٹھہرتے تھے جو سعادت آباد کے پرتعیش شمالی تہران میں واقع ہے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کے مطابق اس علاقے میں اسماعیل ہنیہ کو قتل کی منصوبہ بندی کو قدرے آسانی ممکن بنایا جاسکتا تھا۔
ابتدائی طور پر اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو ایران میں اس وقت نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا جب وہ 19 مئی کو ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے۔
تاہم نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور اس طرح کسی بھی کارروائی میں معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے خدشے کے باعث قتل کے منصوبے کو عین موقع پر موخر کردیا گیا۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ پاسداران انقلاب کی ماہر حفاظتی ٹیم بطور مہمان خصوصی اسماعیل ہنیہ کو اپنے سخت حصار میں رکھتی ہے جس کے باعث انھیں قتل کرنے کے لیے گہری سطح کی دراندازی کی ضرورت تھی۔
اسرائیل نے اب کی بار آپریشن کا مزید دو ماہ سے زیادہ انتظار کیا جب اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران پہنچے۔
تقریب حلف برداری سے پہلے ہی علی الصبح اسماعیل ہنیہ کو گیسٹ ہاوس میں نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھر اس کارروائی کو رات تک موخر کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ تقریب حلف برداری مکمل ہوسکے اور ایران کو مزید ہزیمت اور شرمندگی سے بچایا جا سکے۔
تقریب حلف برداری سے کچھ دیر پہلے ہی اسرائیلی ایجنٹوں نے اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں اس کے بستر کے قریب ایک دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلہ نصب کردیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا چینل 12 کے مطابق گو یہ دھماکا خیز آلہ منصوبہ بندی سے تھوڑا بڑا تھا لیکن پھر بھی اتنا بڑا نہیں تھا کہ ملحقہ کمروں کو نقصان پہنچا سکے۔ تاہم بم میں اتنی طاقت تھی کہ اسماعیل ہانیہ موقع پر ہی ہلاک ہو جائیں۔
تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد اسماعیل ہنیہ اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک کمرے کا اے سی خراب ہوگیا اور وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے جو اتنا دور تھا کہ اس بم سے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
یہ وہ وقت جب اسرائیلی منصوبہ سازوں کو لگا کہ قتل کی یہ سازش ناکام ہوگئی لیکن کمرے کا اے سی ٹھیک کردیا گیا اور اسماعیل ہنیہ واپس لوٹ آئے اور ساتھ ہی اسرائیلی منصوبہ سازوں کے ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ بھی۔
1:30بجے اس آئی ای ڈی بم کو دھماکا سے اڑا دیا گیا جس سے کمرے کی بیرونی دیوار میں ایک سوراخ پڑ گیا اور پورا کمپانڈ ہل کر رہ گیا تھا لیکن جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا یعنی اسماعیل ہنیہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
سیکنڈوں کے اندر، قریب ہی موجود پاسداران انقلاب کی طبی امدادی ٹیم اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں پہنچی لیکن انھیں وہاں حماس کے رہنما مردہ حالت میں ملے۔
اسماعیل ہنیہ کے نائب خلیل الحیا بھی کمرے میں پہنچ گئے اور اپنے لیڈر کی خون آلود لاش کو دیکھ کر روتے ہوئے گھٹنوں کے بل گر گئے۔
اہم شخصیات اور حساس مقامات کے حفاظتی امور کے ماہر تجزیہ کاروں نے اسرائیلی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ کسی ایرانی شہری، پاسداران انقلاب کے اہلکار یا حماس کے عہدیدار کی مدد کے بغیر ایسی پیچیدہ کارووائی ناممکن ہے۔
اسرائیلی چینل 12 کے مطابق کہ حماس اور ایرانی انٹیلی جنس نے یقینی طور پر ان تینوں آپشنز کی تحقیقات کی ہیں۔
Load/Hide Comments