حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

دنیا میں اسرائیل سے بڑا کوئی دہشت گرد نہیں ہے، بشار الاسد کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد چند روز میں اسرائیل نے شام پر پانچ سو سے زائد حملے کئے ہیں، اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان حملوں کی مدد سے شام میں موجود ایرانی فوجی اہداف کو ختم کر رہا ہے، تاہم ایران نے کہا ہے کہ اس کی کوئی بھی فوج فی الحال شام میں نہیں ہے، اسرائیل نے دمشق، حمص، طرطوس، لطاکیہ اور پالمیرا کے شہروں اور ان کے اطراف میں حملے کئے ہیں، میری ناقص رائے میں آج امت مسلمہ کے اس عظیم زوال کے تین اہم سبب ہیں، ایک فرقہ واریت، دوسرا حکمرانوں کا اپنے اقتدار کو طول دینا اور اس کی خاطر اندھے ہو کر ہر قسم کا ظلم ستم کرنا اور تیسرا مسلم ممالک کی خود غرضی، فرقہ واریت نے ہمیں جو نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو، مثال کے طور پر صدام حسین نے شیعوں کو اور بشار الاسد نے سنّیوں کو مارا لیکن نہ صدام نے شیعوں کو ان کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مارا اور نہ بشار نے سنّیوں سے تسنن کی پاداش میں یہ سلوک روا رکھا، دونوں نے فرقہ واریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دیا، صدام حسین کی حکومت سیکولر تھی سو اس کے خلاف علماء میدان میں آئے اور ایک شیعہ اکثریتی ملک میں سب سے مقبول و موثر علماء شیعہ ہی تھے، لہذا صدام حسین کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہی شیعہ علماء اور ان کے پیروکار تھے، سو وہی نشانہ بنے، بالکل اسی طرح بشار الاسد کی آمریت میں اکثریت سنّیوں کی تھی، سو سب سے زیادہ ظلم بھی انہی نے سہا، نہ صدام حسین کوئی مذہبی سنّی تھا اور نہ بشار الاسد دین دار شیعہ تھا، سیاست تو بہت دور کی بات، ان دونوں کی نجی زندگی کا بھی مذہب و مسلک سے کوئی واسطہ نہیں تھا، صدام سنّی خاندان میں اور بشار نصیری خاندان میں پیدا ہوگیا، یعنی خالصتاً اتفاقی و حادثاتی تعلق، محمود غزنوی یا اورنگ زیب نے اپنے مخالفوں کی قوت کا مرکز بننے والے مندر گرائے جس پر کئی ہندو واویلا کرتے ہیں اور کئی مسلم فخر سے بتاتے ہیں ہیں لیکن سنجیدہ مورخ کہتے ہیں کہ ان دونوں بادشاہوں نے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ بننے والی مساجد کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ صدام حسین اور بشار الاسد جیسے لادین آمروں کے ردعمل میں شیعہ اور سنّی اپنی سانجھی اسلامی اقدار اور سیاسی آزادی کے لیے آمریت کے خلاف اتحاد قائم کرتے لیکن افسوس کہ فرقہ وایت آڑے آتی رہی، قارئین کرام چند روز قبل تک کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اس طرح اُلٹ جائے گا، بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد اقتدار میں آئے تھے، دونوں نے مل کر نصف صدی سے زیادہ شام پر اپنا آمرانہ تسلط قائم رکھا، بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کی طرح ایسا نظام بنائے رکھا کہ جس میں ناقدین اور مخالفین کو دبایا جاتا تھا، کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا، اقتدار کی ہوس ان کی رگِ جاں میں اس طرح سرایت کرچکی تھی کہ بس ہونے کانام نہیں لیتی تھی، لاکھوں شامیوں کی زندگیاں ان کی اقتدارکے صدقے قربان ہوئیں، چند برس قبل جب مصر کے لوگ قاہرہ کے التحریر اسکوائرپر جمع ہوکر صدر حسنی مبارک کی بتیس سالہ حکمرانی کوللکارنے لگے تو بشارالاسد کو بھی اپنا اقتدار خطرے میں محسوس ہونے لگا، سدابہار حکمرانی کے خبط میں مبتلا اسدنے ہر اس آواز کوبھی بزور طاقت دبانے کی ٹھان لی جو جمہوری انداز میں ان کی حکومت کے خلاف اٹھتی، بشار الاسد اسی حافظ الاسد کے فرزند ارجمند ہیں کہ جنہوں نے شام کے شہر حماة میں خون کا تماشا بپا کرکے اپنے ہی لوگوں پر ظلم کی بے مثال داستان رقم کی تھی، اس وقت رفعت الاسد کی سربراہی میں شامی افواج نے ستائیس دن تک کاروائی کرتے ہوئے بیس ہزار شامیوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا، جن کی لاشیں کئی دن تک آگ میں جلتی رہیں اور دفنانے کی بھی کسی کو مجال نہیں تھی، اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن اصل معاملہ امت مسلمہ کا کردار اور ان کا داخلی انتشار ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ملکوں کے حالات اس نہج پر ایک دم سے نہیں پہنچ جاتے بلکہ برسوں کی خرابی اس کا سبب بنتی ہے، بقول قابل اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
جن تین اہم عوامل کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا ہے، انہی کی روشنی میں پاکستانی حالات کا جائزہ لیتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی فرقہ واریت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو مختلف تاریخی، سماجی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہے، مختلف مسالک کے حامی اور مذہبی گروہ اپنے اپنے عقائد کو دوسرے گروہوں سے برتر سمجھتے ہیں، اور اکثر اوقات ان اختلافات کو کفر اور نفرت کا رنگ دے دیا جاتا ہے، ہر کوئی اپنی مرضی سے کفر کے فتوے لگاتا ہے، پارلیمنٹ، سیاسی تنظیموں، اسلامی نظریاتی کونسل، مدارس کے وفاقوں کی تنظیمات، مذہبی جماعتوں اور دیگر مقامات پر ساتھ بیٹھنے والے سرکردہ رہنما بھی اس کام میں آگے آگے نظر آتے ہیں، یہ قائدین بھی فرقہ وارانہ انتہاپسندی میں ملوث عناصر کی مذمت کرنے میں اپنی مسلکی وابستگی سے بالاتر نظر نہیں آتے، اسی طرح پاکستان میں مختلف ادوار میں مذہبی طبقہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، دانستہ یا نادانستہ طور پر پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی سے مقامی اورعلاقائی مقتدر حلقوں نے اپنے اپنے سیاسی فائدے اٹھائے ہیں، فرقہ وارانہ قتل و غارت اور مذہبی دہشت گردی میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور یہ تلوار ہر وقت ہمارے سر پر منڈلاتی رہتی ہے، کیا اس بات میں کوئی دو آراء ہیں کہ سعودی عرب اور ایران اس ملک میں اپنے اپنے مکاتب فکر کی پشت پناہی کرکے فرقہ واریت کو ہوا دیتے رہے ہیں، اور معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہر مسلک ہی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، دوسرا اہم عامل ہمارے حکمرانوں کا پنے اقتدار کو طول دینا ہے، چند مخصوص خاندان پچھلی آٹھ دہائیوں سے اقتدار پر قابض ہیں، تیس سال سے زائد عرصہ تو براہ راست فوجی آمر قابض رہے ہیں، جمہوریت اسی طرح کمزور ہوتی ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ لنگڑی لولی جمہوریت بھی آمریت اور شہنشاہیت سے لاکھ درجہ بہتر ہے، ہمارے حکمران بھی اپنے خلاف کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کر سکتے اور ایسی ہر آواز کو دبا دیا جاتا ہے، اگر ہم سبق حاصل کرنا چاہیں تو شام کے موجودہ حالات میں ہمارے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔

مزید پڑھیں:  صدا بہ صحرا فریاد