بجلی کی اوور بلنگ مسترد

وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو سمارٹ میٹرز لگانے کا کام جلد مکمل کرنیکی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوور بلنگ کسی صورت قبول نہیں ،اوور بلنگ میں ملوث افسروں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ایک اجلاس میں جو وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہوا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور لاہور ،پشاور اور فیصل آباد کی الیکٹرک سپلائی کے امور زیر بحث آئے، اجلاس کو لیسکو، پیسکو اور فیسکو کی کارکردگی پر بریفنگ دی گئی، وزیراعظم نے اس موقع پر سمارٹ میٹرز کی تنصیب کا کام جلد مکمل کرنیکی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بلنگ نظام میں شفافیت لائی جائے جبکہ اوور بلنگ کسی صورت قبول نہیں ہے، بجلی چوری کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ،وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں افرادی قوت کی بھرتی میرٹ پر کی جائے ،نیپرا کا دیا گیا ٹارگٹ پورا کرنے میں تمام مسائل بروئے کار لائے جائیں، ادھر وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے فارمولوں پر چلتے تو اگلے10 برس عوام بجلی کی اضافی قیمت ادا کرتے ،ہم نے اگلے چار سال میں عوام کو بجلی سیکٹر کی مشکلات سے نکالنا ہے، عمران خان نے آئی پی پیز کو فارنزک آڈٹ سے بچایا ،انہوں نے کہا کہ پانچ سے چھ ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لیکر آئے اور بجلی کے ترسیلی نظام میں خامیاں دور کی گئیں، اوور بلنگ کم ہونا شروع ہوئی ہے اسے ختم کریں گے، انہوں نے کہا کہ مزید16 آئی پی پیز سے بات جاری ہے، آئی پی پیز کیساتھ بجلی کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل کریں گے، اگلی گرمیوں سے قبل بجلی مزید سستی کریں گے، جہاں تک اوور بلنگ کا تعلق ہے یہ ناروا ظلم ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور گرمی کے تین چار مہینوں میں ہر سب ڈویژن میں ایسے افراد کی اپنے اپنے متعلقہ ایس ڈی اوز کے دفاتر میں ایک بھیڑ لگی ہوتی ہے جو بجلی بلوں میں اضافی یونٹس کی شکایات لیکر بلوں میں تصحیح کرنیکی کوششیں کرتے ہیں مگر متعلقہ عملہ پہلے تو انہیں نہایت نامناسب طریقے سے دھتکارتے ہوئے انہیں اگلے مہینے ایڈجسٹمنٹ کے وعدوں پر ٹرخاتا رہتا ہے اور جو ذرا کسی نہ کسی تعلق سے پہنچ جاتے ہیں تو ان کے بلوں میں معمولی سا رد و بدل کرنے کے باوجود اضافی رقم ادا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، حالانکہ ان میں صارفین کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور اصولی طور پر ان کے بلوں میں اضافی رقم ڈالنے کا نہ اخلاقی نہ ہی کوئی قانونی جواز بنتا ہے، اخبارات میں اس قسم کی خبروں کی بھرمار رہتی ہے جو غریب اور نادار افراد کو ان اضافی بلوں کی وجہ سے روتے اور فریاد کرتے ہوئے ( بددعائیں دیتے ہوئے ) رپورٹ کی جاتی ہیں، یہ ساری زیادتیاں متعلقہ حکام پر اوپر سے پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں جو کنڈا کلچر والوں کی کارستانیوں کا شاخسانہ ہوتا ہے یہ ” لائن لاسز” غریب اور شرافت کی وجہ باقاعدگی سے بل ادا کرنیوالوں پر اضافی بلوں کی صورت میں تھوپ دی جاتی ہیں،طرفہ تماشہ یہ بھی ہے کہ اکثر لوگوں کی کو جو بمشکل ایک آدھ بلب اور ایک پنکھا چلاتے ہیں مگر ان کو” غلطی سے”لاکھوں کے بل بھجوا دئیے جاتے ہیں اس لئے بالآخر وزیراعظم نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اوور بلنگ پر متعلقہ حکام کو متنبہ کر ہی دیا ہے، اگرچہ ایک پشتو ضرب المثل کے مطابق ”عادی بلا کلمہ پڑھنے سے نہیں جاتی” اس لئے امید تو نہیں ہے کہ متعلقہ حکام وزیراعظم کی تنبیہ پر کام کریں گے اور اس کیلئے زیادہ انتظار کرنا نہیں پڑیگا اور چند ماہ بعد ہی جب گرمی کا سیزن شروع ہو جائیگا تو اضافی بلوں کی شکایات سامنے آنا شروع ہو جائیں گی، تب ہم انہی کالموں میں حکومت کو یاد دلائیں گے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے متعلقہ حکام کو وزیراعظم نے کیا ہدایات دی تھیں، دوسرا مسئلہ سمارٹ میٹرز لگانے کا ہے تو اس حوالے سے بھی اگر ہم یاد دلا دیں کہ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران نئے اقسام کے کتنے میٹرز بار بار تبدیل کرنیکی کوششیں کی گئیں ، ان میں سے بعض میٹروں کے ” سر پٹ دوڑنے” کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں اور ہوا بھی ایسا کہ پرانے میٹروں کی جگہ ان دنوں جو میٹر نصب کیے گئے ہیں ان کی رفتار پرانے میٹروں کے مقابلے میں خاصی تیز ہے، اب اگر مزید” سمارٹ ” میٹرز کی تنصیب کا فیصلہ کیا گیا ہے تو اللہ جانے یہ کتنے تیز رفتار ہوں گے اور عوام کی کھال اتارنے میں کتنے معاون ثابت ہونگے، اس لئے اگر حکومت اللہ کا خوف کھاتے ہوئے ” تیز رفتار” میٹروں کی جگہ حقیقی طور پر درست طور پر بجلی کے استعمال کے مطابق میٹرز لگائے ،اوور بلنگ سے درست طور پر اجتناب کرنے پر توجہ دے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی غریب عوام کی قوت خرید کے مطابق مقرر کرے تو امید ہے کہ بجلی چوری کا بھی خاتمہ ہو جائیگا، اسی طرح آئی پی پیز کے ہاتھوں عوام کے استحصال کا سلسلہ روکا جائے اور آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں میں رد و بدل کر کے جتنی بجلی استعمال کی جائے اس کے مطابق ان کو ادائیگی کا قانون لاگو کیا جائے تو آئی پی پیز کو اربوں روپے مفت میں ادا کرنے پر قابو پایا جا سکتا ہے جس کا فائدہ عوام ہی کو منتقل کیا جا سکتا ہے یعنی ان کیلئے قیمتوں میں کمی لائی جا سکتی ہے، مزید یہ کہ اس وقت نہ صرف بجلی بلکہ گیس بلوں پر بھی سلیب سسٹم کا خاتمہ کر کے جتنی بجلی اور گیس خرچ کی جائے اس کے مطابق ادائیگی کے سادہ سسٹم پر عمل درآمد کیا جائے تو سارا نظام ہی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق چلنا شروع ہو جائیگا اور پھر کسی کو بھی شکایات کا موقع نہیں ملے گا اگر وزیراعظم اووربلنگ کے ذمہ داران کو تنبیہ کرتے ہوئے ان کیخلاف تادیبی کارروائی کیلئے خاص سزا مقرر کر دیتے تو اس کا زیادہ اثر ہوتا اور ساتھ ہی وزیراعظم شکایت سیل میں بھی اس حوالے سے ایک شعبہ الگ سے قائم کیا جائے جہاں اوور بلنگ کی شکایات درج کی جا سکیں تو اس سے بھی مشکلات کا ازالہ آسان ہو جائیگا۔

مزید پڑھیں:  بجلی سستی ہونے کے ا مکانات