برصغیر کی سیاست ومعیشت میں ایک بھرپور اننگز کھیلنے والے بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ بانوے برس کی عمر میں دنیا سے چل بسے۔جہلم کے دوردراز گائوں گاہ میںایک غریب سکھ گھرانے میں پیدا ہونیوالا موہنا جدید بھارت کی معیشت کا سب سے بڑا معمار بن کر سامنے آئیگا شاید کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا مگر انقلاب اسی کا نام ہوتا ہے۔من موہن سنگھ کی خدمات بھارت کیلئے تو ہیں مگر انہوں نے برصغیر میں مخاصمت کا ماحول ختم کرنے کیلئے اپنی سی کوششیں کیں مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکیں۔بھارت کی طاقتور حکمران اشرافیہ کو شاید انداز ہ تھا کہ پاکستان رفتہ رفتہ اس معاشی تنزل کی طرف جائیگا جس کے اثرات اس کی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے اور ایسے میں بھارت کو پاکستان کیساتھ کوئی قابل عمل اور برابری کا سمجھوتہ کرنیکی ضرورت نہیں۔جب من موہن سنگھ وزیر اعظم بھارت تھے تو اسی دور میں امریکہ عالمی مالیاتی اداروں ،اقوام متحدہ، فیٹف اور طاقتور مغربی میڈیا سمیت ہر ہتھیار سے پاکستان کے نٹ بولٹ کسنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔یہ سب کچھ دہشتگردی برآمدکرنیوالے ملک کا لیبل لگا کر کیا جا رہا تھا۔ظاہر ہے کہ بھارت امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر بن چکا تھا تو وہ بہت سے منصوبوں سے باخبرتھا اور من موہن سنگھ کا ہی دور تھا جب امریکہ نے بھارت کیساتھ ایٹمی توانائی کا معاہدہ کرکے اپنے ایٹمی پروگرام کو مستقبل کیلئے ایک سند جوازیت عطاکردی۔پاکستان مطالبات اورخواہشات کے اظہار کے باوجود امریکہ سے ایسا معاہدہ اور ایسی سند حاصل نہ کر سکا جس میں اہل عقل کے بہت سی نشانیاں تھیں۔منموہن سنگھ کی موت پر بھارت میں سات روزہ سوگ منایا جارہا ہے۔نریندرمودی سے سونیا گاندھی کے دومتحارب سیاسی کیمپوں تک کے لوگ ان کے تابوت کے آگے سرجھکائے کھڑے ہیں۔پورا بھارت بلاتخصیص مذہب ونظریہ ان کی خدمات کا اعتراف کر رہا ہے۔منموہن سنگھ کی زندگی اورموت میں قدرنا شناسوں کیلئے ایک سبق ہے اور یہی ہماراموضوع ہے۔من موہن سنگھ ایک معیشت داں کے طور1991میں نرسہمارائو کے دور میں بھارت کے وزیر خزانہ بنے۔وہ ایک کمزور پس منظر کے حامل اور دبی ہوئی اقلیت یعنی سکھ کمونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔اس وقت آپریشن بلو سٹار کی ذہنیت بھارت میں زیادہ پرانی ہوئی تھی نہ وہ زخم پوری طرح مندمل ہوئے تھے۔بھارت کا سرپرست اور بین الاقوامی منظر کا سب سے قریبی اتحادی سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا اور یوں بھارت میں بے سائبان ہوجانے کا احساس بھی نمایاں تھا
اور وہ کیفیت بھی پوری طرح موجود تھی۔مغرب بہت حسرت اور حیرت کیساتھ ایک ارب آبادی کی حامل انسانی منڈی کو دیکھ رہا تھا مگر بھارت سوویت دور کی بند معیشت کی پالیسی کا خوگر تھا اور وہ مغرب کی کمپنیوں کی اپنی منڈیوں تک رسائی سے خوف محسوس کر رہا تھا۔یہاں من موہن سنگھ نے بہت مہارت کے ساتھ بھارت کی اصل حکمران اشرافیہ کو باورکرایا کہ سوویت دور کی معاشی پالیسی کو سینے سے لگائے رکھنے سے وہ سوویت یونین کی طرح قصہ پارینہ بن سکتا ہے۔اس وقت بھارت کی معیشت پر ایک رعشہ طاری تھا اور مغربی ممالک اس کی کلائی مروڑنے کیلئے کئی انداز اختیارکررہے
تھے۔بھارت کی حکمران اشرافیہ نے امریکہ کی ترغیب پر آخر کار اپنی پالیسی میںتبدیلی کی اور معیشت کو زوال کی جانب لڑھکنے سے بچالیا اور اس عمل میں منموہن سنگھ کی حکمت عملی کا گہرا دخل تھا۔برسوں بعد جب سونیا گاندھی وزارت عظمیٰ کی کرسی سے چند قدم کی دوری پر تھی تو مخالفین نے ان کے اطالوی پس منظر کا سوال اْٹھا دیا تو سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کی پرانی خدمات کے بدلے انہیں بھارت کا وزیر اعظم نامزد کیا اور یوں وہ مسلسل دوبار بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ایک کمزورسماجی پس منظر کی حامل شخصیت کو معیشت کے شعبے میں خدمات کے عوض اس انعام واکرام کا مستحق جانا گیا۔کچھ ایسی ہی کہانی بھارت کے مسلمان صدر عبدالکلام کی تھی کہ جنہیں کمزور پس منظر کے باوجود میزائل سازی اور ایٹمی شعبے کیلئے خدمات کے عوض اور انعام کے طور صدر بنا یا گیا تھا۔منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے واجپائی کی امن کوششوں کو اونر شپ دی اور اس پیس پروسیس کو آگے بڑھانے کی راہ اختیار کی۔اس پیس پروسیس کے بینیفشری بہت سے ہوں گے لیکن ایک صحافی کے طور میں میں بھی خود کو اس بدلے ہوئے منظر کا بینیفشری سمجھتا ہوں۔دوہزار کی دہائی تک مغرب کی سمت کئی ممالک کو دیکھ چکا تھا مگر مشرق کی دنیالاتعداد لوگوں کیلئے ایک اور ہی سیارہ تھا جس کے بارے میں جو کچھ معلوم تھا فقط مورخین اور مصنفین کی حاشیہ آرائی تھی۔حقیقت میں عالمی سرحد اور کنٹرول لائن کے دوسری جانب کونسی دنیا ہے کچھ پتا نہیں تھا۔یہ پاک بھارت امن عمل تھا جو گوکہ برگ وبار لائے بغیر ہی مرجھا گیا مگر بہت سوں کو بہت کچھ سمجھا گیا۔اسی عمل کے دوران میں نے پہلی بار واہگہ کی سرحد کے پار قدم رکھا اور پھر ریل گاڑی میں ہر سٹیشن پر ایک بورڈ نظر آتا تو نصاب میں پڑھا ہوا کوئی نام ذہن میں آتا۔جالندھر سے حفیظ جالندھری ہوشیار پور سے طفیل ہوشیار پوری،پانی پت سے جمال پانی پتی اور تاریخی لڑائیاں ،انبالہ سے وقار انبالوی یہاں تک دہلی کے بورڈ سے مسلم برصغیر کی پوری تاریخ اور دیوان غالب ذہن میں گھومنے لگے۔دہلی میں قطب مینار جامع مسجد درگاہ نظام دین ، غالب اکیڈمی اور آگرہ میں تاج محل کا حسن بے مثال مبہوت کرنے کو کیا کم تھا کہ متھرا میں لارڈ کرشنا کے پرشکوہ مندر کے پہلو میںویران اور نوحہ کناں متھرا کی تاریخی مسجد کے تالہ بند دروازے اور گھاس پھونس سے اٹے سفید گنبد ملول کرنے کو کافی تھے۔یہ مسجد اب اپنی باری کی منتظر فقط تاریخ کا ایک دھندلا سا نقش ہی تھی کیونکہ اس وقت بھی بابری مسجد کے بعد یہ دوسرا نشانہ تھی۔ غرض یہ کہ مسلم برصغیر کی تاریخ کے تالاب کی غوطہ زنی تھی۔کچھ ہی عرصہ بعد اسی پیس پروسیس کے نتیجے میں کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔ایک ایسی گم گشتہ سرزمین جس میں میرا ماضی دفن اور حال ومستقبل زندہ ہے۔بذرگوں کی قبروں کی صورت میں ماضی اور اپنے درجنوں فرسٹ کزنز کے بچوں کی صورت مستقبل۔پیس پروسیس کی اس ٹمٹماتی ہوئی شمع سے بے شمار لوگوں اپنی تاریخ کی بازیافت کے اس تجربے سے آشنا ہوئے تو اس میں منموہن سنگھ کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔منموہن سنگھ کو بھارت کی معیشت کے نئے خد وخال تراشنے کی خدمات پر دوبار وزیر اعظم بنایا گیا عبدالکلام کو بھارت کے دفاع کو مضبوط بنانے پر صدر بنایا گیا اور دونوں کو بعد ازمرگ اعزاز سے ترنگے میں لپیٹ کر الوداع کہا گیا تو پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محسنوں کیساتھ ہونیوالا سلوک یاد آگیا اور ان کا یہ کہتے ہوئے کف افسوس ملنا بھی کہ یہاں ملک سے جو جس قدر بڑی غدار ی کریگا وہ اتنا ہی انعام پائے گا اور ملک کی خدمت کرنیوالا اتنی ہی بڑی سزا۔آج کے پاکستان کو دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کا یہ تاسف ایک حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔محسنوں کی قدر اورناقدری کا فرق اور اس کا نتیجہ بھی مختلف ہوتا ہے یہ بھی آج ہم تاریخ میں پڑھ نہیں رہے بلکہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
Load/Hide Comments