خیبر پختونخوااسمبلی کے اجلاس میں جس طرح صوبے میں دہشت گردی اور امن و امان کی صورتحال پر فعالیت دکھائی گئی ہے اور آئی جی کے بعد کور کمانڈر کو بریفینگ کے لئے طلب کرنے کا عندیہ دیاگیا ہے بالاخر دیرآیددرست آید کے مصداق اس طرح ہے کہ ایوان کا کورم بھی کافی عرصے بعد پورا ہوا اور باہمی چپقلش کے بعد بالآخر ایوان میں بھیجے گئے عوامی نمائندوں کو اس صوبے کی حالات پر متوجہ ہونے کا موقع ملا ہمارے تئیں ایسے معاملات کوٹھوس ریاستی عملداری کے قیام کی نظرسے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر دوریوں ، گلے شکوئوں اور سیاسی گلہ مندی کے اظہار کی آمیزش سے دور رکھ کربات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اسمبلی میں اظہار خیال کے دوران محولہ جملہ امورکی آمیزش سے اس امر کاتعین مشکل بن جاتا ہے کہ ایوان کو اصل شکوہ انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے شکوہ کایات ہیں یا پھر اس کی آڑ میں اصل مدعا کے اظہار کا موقع تلاش ہو رہاہے جہاں تک پاک فوج اور خیبر پختونخوا پولیس اوران گمنام افراد کی قربانیوں کا تعلق ہے جن کی نام اور شناخت کبھی سامنے نہیں آتی یاپھر عام شہری ہر ادارے محکمے اور افراد نے اپنے حصے کی بھر پور قربانی دی ہے اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا ہے جن کے اعادے اور یاددہانی کی اس لئے ضرورت نہیں کہ قربانیوںکا یہ سلسلہ جاری ہے اعدادو شمار سے واضح ہے کہ 2023ء کی بہ نسبت سال گزشتہ یعنی 2024میں دہشت گردی کی وارداتوں اور دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور جانی نقصانات کی تعداد بھی بڑھی ایسے میں ایوان میں کھڑے ہو کر ان اداروں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کی بجائے بطور حکومت اور نمائندگان اسمبلی اگر اپنا احتساب نہیں کیا جا سکتا توایسے سوالات بھی نہ اٹھائے جائیں جن کا جواب خود میں تلاش کرنا پڑے کیا یہ حقیقت نہیں کہ صوبے میں سیاسی حکومتی اور انتظامی معاملات کی صورتحال عوام کے لئے قابل قبول نہیں رہی اور اصلاح کے متقاضی ہیں ان سوالات پرغور کرنے کے بعد ہی امن و امان کے حوالے سے جس طرح کے بھی تحفظات کا اظہار کیا جائے ایسا کرنے میں حق بجانب قرار پائیں گے ۔ اولاً یہ کہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبے میں قبائلی اضلاع نام کے علاقے باقی نہیں رہے اب فاٹا پاٹا اور بندوبستی اضلاع کی تفریق ختم ہو چکی ہے دوم یہ کہ ان علاقوں میں احساس محرومی کی شکایت ایوان میں کھڑے ہو کر کس سے کی جارہی ہے کیا یہ حکومتی ذمہ داری نہیں کہ ان علاقوں کو ترقی دی جائے جہاں تک ان علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دہشت گردوں کے دوبارہ سراٹھانے کا سوال ہے اس کی نہ صرف پوری گنجائش ہے بلکہ اس کی جواب طلبی ایوان کاحق ہے اس ضمن میں وقتاً فوقتاً ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی اپنی ذمہ داری پوری کی ہو گی اورتحفظات کا اظہار بھی کیا ہوگا بہرحال اس امر کو مزید مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام صوبائی ا ور مرکزی حکومتوں اور مقتدرہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ تینوں فریق دہشت گردی کی روک تھا م اور قیام امن میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی روزبروز بڑھتی جارہی ہے لیکن حکمران اس کی روک تھا م میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار نہیں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی عمل نہیں ہوسکا متفقہ نیشنل ایکشن پلان کی راہ میں رکاوٹ کون ہے ۔کس سے سوال کیا جائے اور کون جواب دے اس حوالے سے جب تک ملک میں اس حوالے سے مکمل طور پر ریاستی حکومتی او رعوامی ہر سطح پر اجماع کی کیفیت نہیں ہو گی اور متفقہ لائحہ عمل مرتب کرکے ہر فریق اپنی ذمہ داری مرتب دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے پوری نہیں کرے گی صرف سوالات اٹھانے اور تنقید کرنے سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو گا۔پولیس صوبائی حکومت کاماتحت محکمہ ہے جہاں اس کی قربانیوںکا تذکرہ کیا جائے وہاں اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور کامیابی و ناکامی کابھی جائزہ لیا جائے جہاں تک وفاقی سطح کے معاملات ہیں یقینا وہاں پاک فوج کی ذمہ داریوںاور اقدامات کے حوالے سے بھی سوال ضرور ہوناچاہئے ان سطور کے تحریر کئے جانے تک آئی جی خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس میں بریفینگ کے لئے پیش نہیں ہوئے تھے ان کے بعد کور کمانڈر پشاور بھی ایوان کو بریفینگ دینے کے لئے پیش ہوں گے جس کے بعد حکومت اور ایوان کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ بر بنائے مخالفت آپریشن کے متبادل کوئی اقدام تجویز کرے تاکہ اس پر عملدرآمد کرکے دہشت گردی کے عفریت پرقابو پایا جا سکے جس کے لئے صوبائی حکومت اورایوان کو بھی اپنے حصے کے فریضے میں کوتاہی نہ کرنے کی ذمہ داری بھی نبھانا ہو گی تاکہ مل جل کر اس عفریت سے نجات حاصل ہو۔