ہر سال ملک میں مہنگائی میں اضافہ کرنا حکومتوں کا شیوہ بن چکا ہے ایک جانب ابھی حال ہی میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں بے پناہ اضافہ سے عوام کے ذہنوں میں لاتعداد سوال جنم لے رہے ہیں جبکہ بعض اہم اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی ناقابل فہم اضافہ سوالات کا موجب بن رہے ہیں تو دوسری جانب سال نوکے تحفے کے طور پر پٹرولیم قیمتوں میںاضافے کی صورت دیدیدیاگیاہے جبکہ موٹرویز کے ٹول ٹیکس میں بھی اضافہ کرتے ہوئے پشاور تا ا سلام آباد موٹرکار پر ٹیکس بڑھا کر 500 روپے کر دیاگیا ہے ڈیرہ سے ہکلہ 600 روپے ، ہزارہ ایکسپریس پر 250 روپے وصول کئے جائیں گے اسی طرح سکھر سے ملتان تک گاڑی کا ٹیکس 1050 روپے لاہور سے عبدالحکیم 650 روپے کردیا گیا ہے ان تبدیلیوں کا اطلاق پانچ جنوری سے کیا جارہا ہے یہ رقوم موٹر کار کے لئے ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ جن میں وین اورفلائنگ کوچ وغیرہ کے ٹول ٹیکس میں بھی مزید اضافہ کیا جارہا ہے ، اس اقدام سے یقینا ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں مزید اضافہ یقینی ہے خاص طور پر جب پٹرولیم قیمتوں سے مختلف فاصلوں کے لئے گاڑیوںمیں ڈالے جانے والے پٹرولیم ، ڈیزل کے اخراجات کے ساتھ ٹول ٹیکس میں اضافے سے پرائیویٹ گاڑیوں کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھ جانے سے مسافروں کے لئے کرایوں میںاضافہ ناگزیر ہو جائے گا اور عام آدمی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ملک میں پہلے ہی ہر شعبہ زندگی میں اخراجات بڑھ رہے ہیں اور حکومت کے محکمہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کم ہونے کے دعوئوں کے برعکس برسرزمین حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں اعداد وشمار کا گورکھ دھندا اپنی جگہ مگر جوعوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے وہ الگ بات ہے اس لئے ہر قدم پرصرف عوام پر مہنگائی مسلط کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کسی ایک شعبے کو تو چھوڑ دیا جائے جس کے بارے میں عوام یہ سمجھ سکیں کہ کم ازکم فلاں شعبے میں مہنگائی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق چھوٹے سے چھوٹے شعبے میں بھی مہنگائی کے اطلاق سے عوام کی جان نہیں چھوٹ رہی جو ان حکومتی دعوئوں کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں کہ مہنگائی واقعی قابو میں آگئی ہے ۔