دنیا نے موجودہ ترقی تعلیم ہی کی بدولت کی ہے ۔گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے موجودہ تعلیمی نظام دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے ۔دنیا کے مقابلے میں ہندوستان اور پاکستان میں تعلیم کا جو نظام رائج رہا ہے وہ حصول علم کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد انگریز سرکار کے افسران اور عملے کی معاونت کرنے کے لیے افرادی قوت تیار کرنا تھا ۔ اس لیے ہمارے نظام تعلیم کا سب سے بڑا وصف آج بھی انگریزی کی تعلیم و قابلیت ہے ۔ جبکہ انگریزوں نے اپنے ملک میں تعلیم کا مقصد علمی تربیت اور معاصر و جدید علوم کی ترویج و ترسیل رکھا تھا جس میں وہ مسلسل ترقی کررہے ہیں ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے سات دہائیوں سے زیادہ ہوچکے ہیں لیکن ہم نے نہ اپنا نظام تعلیم بدلا ، نہ قانون بدلا، نہ انتظامی نظام تبدیل کیا اور نہ ہی نظام انصاف بنانے کی کوئی کوشش کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیا سے ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے ۔ آج ہمارے پاس دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ وسائل ہیں لیکن اس کے باوجود ہم مسلسل بدحالی کا شکار ہیں ۔ آزادی کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم کسی ایک نظام تعلیم پر متفق ہوتے اور اسے اس ملک میں لاگو کرتے مگرہم نے زندہ اور آزاد قوموں کی طرح ایسا نہیں کیا اور ملک میں طبقاتی نظام کو تعلیم کے ذریعہ فروغ دینا شروع کردیا ۔ یوں اس ملک میں گزشتہ سات دہائیوں سے کئی نمائشی نظام تعلیم رائج ہیں اب چونکہ دنیا نے اپنا پورا نظام بدلنا شروع کیا ہے تو ہم پھر بھی کچھ نہیں کررہے ۔ اب دنیا ایک نئے تعلیمی نظام پر جارہی ہے ۔ آج سے تین برس پہلے دنیا نے مصنوعی ذہانت کے دنیا میں باقاعدہ شراکت داری شروع کی تو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ایشیا کے کئی ایک ممالک نے بھی ان کی پیروی کی جس کی وجہ سے ان ممالک میں معاشی ترقی ہونے لگی جبکہ اس دوڑ میں پاکستان شریک ہی نہیں ہوا۔ اب اس برس یعنی 2025 میں دنیا کے بیشتر ممالک اپنے سابقہ تعلیمی نظاموں کو بتدریج ترک کرنا شروع کردیں گے اور ان علوم کی تعلیم وتدریس بند کردیں گے جس کی اس وقت مزید ضرورت نہیں ہے اور جو مصنوعی ذہانت کی موجودگی میں کسی کام کے نہیں ہیں ۔ انگلستان میں تو چند ماہ پہلے ہی یونیورسٹیوں نے کیمسٹری اور دیگر پرانے مضامین کے شعبے بند کرنا شروع کردئیے ہیں ۔ وہ نظام تعلیم جو آج تک رائج تھا وہ مستقبل کے کسی بھی کام میں فائدہ مند نہیں رہے گا ۔ یہ دعوی دنیا کے بیشتر جدید علوم سے وابستہ ماہرین کررہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا تیزی کے ساتھ ڈیجیٹل ہورہی ہے اور انٹرنیٹ کی تیز ترین رفتار کی وجہ سے بہت سارے ناممکن کام بھی ممکن اور آسان ہوتے جارہے ہیں ۔ اب دنیا کی بیشتر پرانی لیبارٹریاں کسی کام کی نہیں ہیں اس لیے کہ ان کا کام کوئی بھی عام کمپیوٹر کرسکتا ہے اور اب تو اے آئی کی وجہ سے ان لیبارٹریوں کے لاکھوں ورکرز کی بھی ضرورت نہیں رہی ۔ مواصلات سے لیکر ترسیلات تک تمام معاملات اگلے دس برسوں میں اے آئی کے ذریعہ انجام پائیں گے ۔ ایسا میں ہمارے ملک میں ایسا کوئی کام نہیں ہورہا کہ ہم بھی دنیا کے شانہ بشانہ اس نئے دور میں داخل ہوں ۔ ہمارے مقابلے میں بنگلہ دیش ، ویتنام ، انڈیا اور دیگر ممالک اس سلسلے میں سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کررہے ہیں ۔ اس وقت ہمارے ملک میں دو سو کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جن میں پڑھائے جانے والے اسی فیصد مضامین کی اگلے چند برسوں میں کوئی ضرورت و وقعت نہیں رہے گی ۔ مگر یونیورسٹیوں میں حکومت نے جدید علوم کے لیے کوئی کام ہی نہیں کیا ۔ ہمارے مقابلے میں بنگلہ دیش نے اپنی یونیورسٹیوں کو بدلنا شروع کردیا ہے ۔ بلکہ اب تو وہاں یونیورسٹیوں میں وہ مضامین پڑھائے جارہے ہیں جن کے ہم نے ابھی تک نام بھی نہیں سنے ۔یہ جو ہمارا نظام تعلیم ہے یہ دراصل بچوں کے قیمتی وقت کا زیاں ہے ۔ اس کی جگہ اگر یہ کروڑوںبچے کسی عملی کام میں تربیت حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔ دنیا میں تعلیم صرف چند گھسے پٹے آئوٹ آف ڈیٹیٹ کتابیں اور نوٹس پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ کسی بھی علم کو متعلقہ کتابوں سے پڑھ کر پھر اس کی مکمل عملی تربیت حاصل کرکے اس کام کو گزشتہ سے بہتر انداز میں کرنے کے ہنر کو تعلیم کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں بچے بارہ برس انگریزی پڑھنے کے بعد بھی نہ انگریزی بول پاتے ہیں اور نہ لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔ یہی حال اس ملک میں ریاضی کا ہے دس برس تک ریاضی پڑھنے کے بعد کسی ایک بچے سے اس کا ستعمال معلوم کریں وہ آپ کو اس کا استعمال نہیں بتا سکے گا ۔ طالب علموں کو چھوڑیں ریاضی پڑھانے والوں سے پوچھیں کہ اس کا استعمال کیا ہے تو وہ بھی اس کا جواب نہیں دے سکتے ۔ یہی حال ہمارے دیگر مضامین کا ہے ۔تو پھر ایسے نظام تعلیم پر یہ سالانہ اربوں کا خرچہ کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت سنجیدگی کے ساتھ تعلیم پر توجہ دے اور مرحلہ وار نظام تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق بدلنا شروع کردے ۔ اس کام میں مشکلات موجود ہیں ۔ سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ ہمارے پاس جدید علوم کے اساتذہ ہی نہیں ہیں ۔ چین جیسے ملک نے جدید علوم میں مہارت کے لیے امریکہ سے چار لاکھ اپنے باشندوں کو تعلیم و تربیت دلوائی اور ان علوم میں ان سے وہاں کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے تحقیق کی ڈگریاں اور عملی تربیت دلوا کر انہیں ملک میں جدید ترقی کے کاموں پر مامور کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج چین ٹیکنالوجی میں امریکہ سے آگے نکل گیا ہے ۔ چین میں یونیورسٹیاں بنانے سے پہلے باقاعدہ سکول میپنگ کی گئی ہے اور ان علوم کا انتخاب کیا گیا ہے جن کی ان کو ضرورت ہے اور پھر چینی حکومت نے اس پر کثیر سرمایہ کاری کی ہے جو کئی ٹریلین ڈالرز کی ہے ۔ اس کے ثمرات دیکھیں وہ اب معاشی طور پر دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یہی سرمایہ کاری جنوبی کوریا نے بھی کی ہے ۔ لیکن ہماری حالت دیکھیں کہ ہم کیا کررہے ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم اس حد تک بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اس کی بنیاد پر اب مشرقی وسطیٰ میں کوئی کام دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اگر ہمارے نظام تعلیم کو دنیا کے دیگر ممالک کے گوشوارے میں دیکھیں تو ہم سب سے آخر میں آتے ہیں ۔ اس لیے کہ دنیا اب کا غذ اور لیکچر سے بہت آگے نکل گئی ہے ۔ اب جو آپ سوچتے ہیں اس سے ہزار گنا بہتر اے آئی آپ کے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے ۔ اگر آپ کو شک ہے تو اپنے موبائل میں کسی بھی میڈیا پر دیکھیں جو آپ سوچ رہے ہوتے ہیں وہ آپ کے پوچھے بغیر آپ کو دکھا رہا ہوتا ہے ۔ اور یہ تو اے آئی کی شروعات ہیں ۔ ہمیں اپنے سکولوں میں سے بیس فیصد کو فوراً ہی اے آئی ٹیچنگ سکولوں میں بدلنا ہوگا ۔ ورنہ دیر ہوجائے گی ۔ اس کالم کو محفوظ کرلیں چار برس بعد آپ کے بچے جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ ان کے لیے بے کار ہوجائے گا ۔ البتہ اگر آج وہ چار برس بعد آنے والے مضامین کی طرف سفر شروع کریں گے تو وہ دنیا کے سنگ چلیں گے ۔