چند روز قبل میرا کالم بعنوان ” سیاسی جماعتوں کا نظریہ سے گریز ” شائع ہوا تو حسب معمول اہل فکر کے علاوہ اس مرتبہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے اپنی رائے سے بھی مستفید کیا اور یہ مانا کہ ہم جس نوعیت کی سیاست میں اُلجھے ہوئے ہیں ، ایسے میں عوام کی اکثریت جمہوریت کے بارے مایوسی کا شکار ہو چکی ہے ۔ مزید یہ کہ مُلک کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں الیکٹرانک میڈیا پر دانشور جس قسم کی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اور اخبارات میں جو کالم و مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں ، اس سے مایوسی میں اضافہ اور جواں نسل کو جمہوریت سے بے گانہ کیا جا رہا ہے ۔ زمینی حقائق اور عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے دیکھیںتو یہی لگ رہا ہے کہ ہم ایک سیاسی بھنور میں پھنس گئے ہیں جہاں سیاسی رہنماؤں کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں کہ وہ نہ صرف فوری طور پر قومی معیشت کو سنبھالا دے سکیں جبکہ سیاسی عدم استحکام کا حل نکالنے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی علاقائی و عالمی صف بندیوں میں مُلک کو مستحکم جگہ فراہم کرنے کی راہ پیدا کر سکیں ۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں خود احتسابی کی جڑیں گہری نہ ہوں ، سوچنے سمجھنے یا تفکر کی صلاحیت سے عاری ہو اور جہاں سیاسی جماعتیں اپنی سمت کا تعین کرنے سے معذور ہو جائیں تو وہاں ایسی سیاسی صورتحال اور عوامل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ۔ جب سے انسانی معاشرے وجود میں آئے ہیں ، اسی وقت سے سیاست کا انسانی زندگی کے معاملات سے تعلق ثابت ہے بلکہ ہر دور میں اہل فکر و نظر نے سیاست کے موضوع کو اہمیت دی ہے ۔ اس غور و فکر کے نتیجہ میں سیاسی گرو ہ ، جماعتیں قائم ہوتی رہیں اور انہی جماعتوں نے اپنی سیاسی فکر سے افراد کی ذہن سازی اور تربیت میں ایک فعال کردار ادا کیا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں کسی مُلک کے حالات اور ماحول کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کے فہم و شعور کی سطح بھی بدلتی رہی ہے ، خاص کر اجتماعی ، اقتصادی اور تاریخی اسباب کا اثر ان کے سیاسی فکر پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن ایسے میں سیاسی جماعتوں کے ہاں غور و فکر کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ سیاسی جماعتوں کے اس عمل کی وجہ سے ان ممالک میں جمہوریت ہمیشہ مضبوط رہی ہے ۔ ہمارے مُلک میں اگر سیاسی استحکام برقرار نہ رہ سکا اور جمہوریت نے آمریت کے ہاتھوں شکست کھائی تو اس کی تمام تر ذمہ داری بھی سیاسی
جماعتوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ان کی کمزوری اور ناکامی کی وجہ یہ بنی کہ اول تو کسی ٹھوس فکری بنیاد پر جماعت قائم نہ ہو سکی اور اگر ماضی میں کسی جماعت نے اپنی سیاسی فکر کا تعین کیا بھی تو بر سر اقتدار آنے کے بعد یا اقتدار کے حصول میں اپنے تفکر کی روش کو چھوڑ کر خود فراموشی کا طریقہ اپنا لیا ۔ اہل فکر اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں نے ہمیشہ اپنی ذہنی سوچ کے مطابق کسی جماعت میں شمولیت اختیا ر کی ہے ۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کی فکری تربیت کرتی رہی ہیں ۔ ایک کارکن کی اپنی جماعت سے وابستگی نظرئیے اور جماعتی منشور سے ہی جڑی ہوتی جس میں کسی فرد کی محبت کا دخل نہ ہوتا ۔ یہاں المیہ یہ رہا کہ سیاسی جماعتوں میں ایسی کوئی روایت پروان نہ چڑھ سکی بلکہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ جیسی جماعت کی قیادت اندرونی سازشوں اور دھڑے بندیوں کا شکار ہوگئی ۔ غیر سیاسی قوتوں کی ریاست پر گرفت مضبوط ہوئی، جمہوری اقدار اپنانے سے گریز کیا گیا اور نظریاتی رہنما سیاست سے الگ ہونے لگے ۔ جب بھی سیاسی کارکنوں اور کسی جماعت کے قائدین نے اس کے خلاف مزاحمت کی تب جوڑ توڑ ہوئی ، سیاسی اتحاد بنائے گئے اور جماعتوں کو تقسیم کیا جانے لگا ۔ ایک ایسی سیاسی کشیدگی شروع کی گئی جو آج تک جاری ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کی رسہ کشی میں اُلجھ گئیں اور ساتھ ہی اپنے کارکنوں پر انحصار کم کر دیا۔ سیاسی فکر نہ رہی تو سیاسی کارکنوں کا وجود بھی ختم ہو گیا ۔ اگر کسی سیاسی جماعت میں شخصیت پسندی کی بجائے سیاسی فکر رکھنے والے موجود بھی ہیں تو جماعت ان سے لا تعلق ہو چکی ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت اب غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ تعلق جوڑنے میں مگن ہے ۔ مُلک کے حالات کو سب نے مل کر درست کرنا ہوگا ورنہ کسی سیاسی جماعت کے پاس ایسا کوئی نسخہ نہیں کہ خود اکیلے مُلک کو اس بحران سے نکال سکے ۔ ان سیاسی جماعتوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک ایسی سیاسی فکر کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو جمہوری اقدار اور سیاست کے اصل سرچشمہ سے مربوط ہو ۔
Load/Hide Comments