انسداد دہشت گردی کے عزم کا ایک بار پھر اظہار

وزیراعظم شہباز شریف نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کا وقت آچکا ہے۔ دشمن مذموم مقاصد کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں، سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور دیں گے، پاکستان کے اندر دشمنوں کے سہولت کار موجود ہیں، دشمن کے سہولت کار پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیوں میں مصروف ہے، ہمیں معلوم ہے کہ ملک دشمنوں کو کون کون سے ممالک سہولت فراہم کر رہے ہیں لیکن ہمارا قومی مفاد سپریم ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنایا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے جرگہ کی حیثیت سے مذاکرات کی جبکہ آرمی چیف نے نیکٹا کو دوبارہ فعال بنانے کی تجویز پیش کی نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا جائزہ لے کر ناکامی کے اسباب پر غور کرکے ان کو دور کرنے کی ضرورکوشش کی گئی ہوگی اس امر کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے فیصلوں اور مجوزہ عملی اقدامات پرعملدرآمد میں آخر رکاوٹیںکیاہیں اس میں کوتاہی کیوں ہو رہی ہے اس کی ذمہ داری کس پرعائد ہوتی ہے اور رکاوٹوں کو ختم کرکے اس پر عملدرآمد کے تقاضے کیا ہیں امر واقع یہ ہے کہ ہر بار کے اجلاس میں فیصلے بھی ہوتے ہیں اورعزائم کا بھی اظہار کیاجاتا ہے مگر مجوزہ اقدامات یہاں تک کے واضح طور پر اعلان کردہ متفقہ فیصلوں پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ اس میں رکاوٹیں کیا ہیں ملک سے باہر اور سرحدی مقامات پر سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کا مسکت جواب تو اچانک اور برموقع دینے کی ضرورت ہوتی ہے اس حوالے سے منصوبہ بندی کے ساتھ ہر دم تیار حالت میں رہنے کا عمل تو ہوتا ہے لیکن دہشت گرد اور مشکوک عناصر سرحد پارکیسے کرتے ہیں ان کی نگرانی اور روک تھام کیوں نہیں ہوپاتی اس پر غور کرنے اور سخت عملی اقدامات ہنوز توجہ طلب ہیں اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر جس پیمانے پر مشکوک عناصر کی تطہیر کے عمل کی ضرورت ہے قومی ایشن پلان کے فیصلے کے مطابق اس پر عملدرآمد کا ہنوز فقدان ہے یہ درست ہے کہ بعض علاقوں میں آپریشن ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں بھی وقفے وقفے سے دہشت گرد عناصر سر اٹھاتے ہیں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کا مکمل طور پر صفایا نہیں ہوا تھا ۔ مشکل امر یہ بھی ہے کہ ابھی تک خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور سیکورٹی فورسزکے درمیان اس امر پر ہی اتفاق نہیں کہ انسداد دہشت گردی کی خدمات کی انجام دہی کیسے ہو صوبائی حکومت کی جانب سے آپریشن کی مخالفت کیوں ہوتی ہے اس حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا اجلاس میں موقف سن کر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی موجودگی میں کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا جہاں تک وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے جرگہ کی صورت میں مذاکرات کی تجویز کا سوال ہے اگر اس طرز کی مساعی پہلے ہونے اور اس کی ناکامی پیش نظرنہ ہوتی تو تجویز پر عملدرآمد میں قباحت نہ تھی مگر یہاں مشکل امر ہی یہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر ایک جانب مذاکرات اور اسی دوران تصادم کی کیفیت بھی ہوتی ہے ایسے میں یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی پالیسی اورکاوشیں کیاہیں ایک جانب مل بیٹھنے اور دوسری جانب سرحدوں پر گولہ باری اس طرح سے تو کچھ حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا ظاہر ہے تصادم اور دہشت گردی کی سرپرستی ہر دوپالیسیاں اختیار کرنا اپنے پائوں خود کلہاڑی کے مارنے کے مترادف ہے ہمسایہ ممالک کو پہلے اس سادہ لوحی سے باز آجانا چاہئے اور معاملات کے حل کے لئے متانت پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئے اس سے قطع نظر اس امر کے اعتراف میں کوئی مانع نہیں ہونا چاہئے کہ ملک میں سیاسی اختلافات صرف داخلی معاملات حکومت و سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات سے وہ امور بھی باہر نہیں جس میں مکمل طور پر ملکی سطح پر اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے بنا بریں اس طرح کے اجلاسوں کے بعدبھی من چہ می سرائی طنبورہ من چی می سرائی قسم کی گفتگو جب ہوگی توپھر اس کے فیصلوں اور اتفاق رائے سے بھی اسی محاورے ہی کے مطابق نتائج کی توقع کیا جانا بدگمانی نہیںہو گی نیکٹا کے قیام اور اس کو فعال بنانے سے قبل اسے جن حالات کاشکار بنا کر عضو معطل بنا کر رکھا گیا اور نتیجتاً جس طرح مربوط عمل اور اشتراک معلومات کا فقدان ہوتا ہے اس طرف صرف توجہ مبذول کرانے کی بجائے عملی طور پر اگر اس کی سرپرستی کی جائے اور وزیر اعظم و آرمی چیف بطور خاص اسے فعال بنانے میں دلچسپی لیں تو یہ دہشت گردی کی بیخ کنی میں اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ۔۔۔'' آپ کی باتیں''۔۔۔