بنتے بگڑتے مذاکرات

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کاماحول دوسرے دور کے اختتام کے ساتھ ہی تبدیلی ہونے کے خدشات اب کافی نمایاں ہو کر سامنے آگئے ہیں ایک طرف جہاں تحریک انصاف نے مطالبے کے با وجود اپنے مطالبات تحریری صورت میں پیش کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے وہاں دوسری جانب پی ٹی آئی کے اتحادی سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے بانی چیئرمین عمران خان نے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں مذاکرات ختم کرنے کی بات کی ہے۔ کوئی ایک بھی مطالبہ نہیں ماناگیا تو پھر مذاکرات ختم ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار موقف تبدیل کرنے سے مذاکراتی عمل مثبت طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اسد قیصر کے نئے موقف سے لگتا ہے کہ وہ اپنے وعدے اور یقین دہانی کو پورا کرنے میں مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ سابق سپیکر نے حکومت سے مذاکرات کرتے کرتے اچانک ”اصل فیصلہ سازوں” کی شمولیت کا مطالبہ کردیاتھا جبکہ اسیر بانی تحریک انصاف کا تو مستقل موقف ہی یہ رہا ہے کہ وہ حکومت سے نہیں مقتدرہ ہی سے معاملت کریں گے ملک میں سیاسی مذاکرات کا آغاز ہواکا تازہ جھونکا ثابت ہورہے تھے اور اس پر ہر طرف سے اطمینان کا اظہار سامنے آیا تھا تحریک انصاف کی جیل سے باہر کی قیادت بھی پر امید تھی مگرحسب دستور موقف کی تبدیلی کے خدشات درست ثابت ہونے کے امکانات نے مذاکراتی عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے فریقین اگر اس کا کوئی حل نہ نکال سکے اور ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہوئی توپھر معاملات کو دوبارہ پٹڑی پر ڈالنے میں وقت لگنا فطری امر ہوگا نیز اس سے مشکلات کا ایک نیا دور بھی شروع ہو سکتا ہے جس سے تحریک انصاف اورحکومت دونوں ہی متاثر ہوسکتے ہیں ایک مرتبہ مذاکرات شروع کرکے اور بعض مطالبات سے پی ٹی آئی نے صرف نظر کرنے کا جو عندیہ دیا تھا اب ان معاملات کو دوبارہ سامنے لانے سے ان مطالبات کی سنجیدگی متاثر ہونے کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے بنا بریں جب پی ٹی آئی نے وسیع ترمفاد میں جب مذاکرات پر اتفاق کیاتھا تو کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھانا ہی موزوں راستہ ہوگادیکھا جائے تو تحریک انصاف کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا جا چکا ہے اور جوابی خیر سگالی طور پر بعض کارکنوں کی رہائی بھی ہو چکی ہے اور اس سے ایک اچھا تاثر قائم ہوا ہے ایسے میں فریقین معاملہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سراب تلاش کرنے کی بجائے حقائق پرتوجہ مرکوز کریں اور سنجیدگی سے کوشش کی جائے کہ وہ خود بھی اس مشکل سے نکلیں اور ملک کو بھی نکالیںجس کااولین تقاضا ہے کہ مذاکرات جاری رکھی جائیں اور معاملات پر اتفاق کے بعد اس سے روگرانی سے احترام کیا جائے اس طرح سے معاملات آگے بڑ ھ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  اپنوں کے جامے میں اغیار