یلن ہمارے محلے کے 10-12 نوجوانوں کی ایک ٹولی ہے۔ اس ٹولی میں کچھ طالب علم چند ایک ملازمت پیشہ اور باقی کاروبار سے وابستہ نوجوان ہیں۔ سارا دن یہ اپنے اپنے مشغلوں میں مصروف رہنے کے بعد شام کو اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر رات گئے محلے کی بند دکانوں کے تھڑوں پر گپ شپ لگاتے ہیں ۔ یہ ٹولی نہایت ہنس مکھ ملنسار با اخلاق اور با کردار نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔مجھے ان کی ایک عادت بہت پسند ہے ۔ وہ یہ کہ ساری ٹولی با جماعت نماز پڑھتی ہے ۔ مسجد میں ان نوجوانوں کی وجہ سے آباد ہے کیونکہ یہاں کی صفائی ستھرائی اور صفوں کی درستگی ان کی ذمہ داری ہے ۔ آج سارا دن یہ ساری ٹولی مسجد نہیں آئی ۔ رات کو بند دکانوں کے تھڑے بھی ویران تھے ۔ کسی کو بھی ان معصوم نوجوانوں کے بارے معلوم نہیں تھا۔ دوسرے دن سہ پہر کو دو بندوں کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ پوچھنے پر بتایا کہ ہم سارے دوست چولستان گئے تھے ۔ آج صبح ہی پہنچے ہیں۔ مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چولستان میں قحط سالی ہے۔ ابھی تک بارشوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ خوراک کی کمی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی سے مال مویشی مر رہے ہیں۔ کچھ روز پہلے ہم نے لوگوں سے ایک نیک مقصد کے لیے چندہ مانگا تھا ۔ اس سے ہم نے راشن خریدا ۔ پانی کے دو ٹینکرز بھی ساتھ لے گئے ۔ راشن تقسیم کیا ۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بھی پیاس بجھائی ۔ اس نوجوان کی بات کاٹتے ہوے کسی نے پوچھ لیا کہ جانوروں کو پانی کیسے پلایا۔ کہنے لگا کہ ہم اپنے ساتھ بچوں کے پلاسٹک کے سوئمنگ پول لے گئے تھے ۔ان کی مدد سے بے زبانوں کی پیاس بجھائی۔ اس کے بعد وہاں کے دل خراش واقعات سنائے جو میں یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ چولستان میں انسان اور جانور پیاس سے مر رہے ہیں ۔ صحرائے چولستان پاکستان کا ہی حصہ ہے ۔ وہ پاکستان جس کے شمال میں ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے دریا جنوب تک بہتے ہوئے آخر کار بحر ہند میں جا گرتے ہیں ۔ یہ پورے ملک کی لمبائی برابر پانی کی قدرتی ترسیل ہے۔پھر دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اس نعمت خداوندی کو ملک کے عرض میں پہچانے کے لیے موجود ہے۔ کرہ ارض پر ذرا نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا 2/3 حصہ پانی اور صرف 1/3 حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔ اس سے پانی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ رب العالمین نے قرآن مجید میں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ ہر جاندار کی بنیاد پانی ہے۔ گویا پانی ہی زندگی ہے۔ کرہ ارض پر موجود پانی کا صرف 3 فیصد قابلِ استعمال ہے۔ اس 3 فیصد کا 70 فیصد زمین کے انتہائی شمالی/ جنوبی سروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود برف پر مشتمل ہے۔ اسی 3 فیصد کا 29 فیصد زیر زمین ذخائر جبکہ باقی 1 فیصد دریاں جھیلوں اور ریزروائرز کی صورت میں ہے۔ پاکستان میں اس وقت سالانہ 143.5 ایم اے ایف پانی کا بہائو ہے۔ اس میں سے 50 ایم اے ایف پانی کا بہا نہروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے اس پانی کا صرف 9.5 فیصد سٹور کر سکتا ہے۔ ورلڈ سٹینڈرڈ کے مطابق پاکستان کو دستیاب پانی کا40فیصد سٹور کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے 900 دن، مصر کے 700, آسٹریلیا کے 600 جنوبی افریقہ کے 500 اور بھارت کے 170 دنوں کے مقابلے میں پاکستان صرف 30 دن کا قابلِ استعمال پانی سٹور کر سکتا ہے۔ ڈیموں کی پانی سٹور کرنے کی صلاحیت میں مٹی بھرنے سے اس صلاحیت میں مزید 27 فیصد کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں موجود پانی کے ذخائر کا 25-35 فیصد بارشوں کی مرہونِ منت ہے۔ 65-75 فیصد گلیشیر کے پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس طرح زمین پر بہنے والے پانی کی مقدار 166.6 ایم اے ایف ہے۔ تقریبا 50 ایم اے ایف پانی زیر زمین ذخائر سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار 800 معکب میٹر سالانہ ہے۔ عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق فی کس پانی 1800 مکعب میٹر سالانہ ہونی چاہیے۔ 1000مکعب میٹر فی کس سے کم پانی والے ممالک خشک سالی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ارسا کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کوٹری سے نیچے بہا 140-180 دن صفر ہوتا ہے۔ گویا سسٹم میں پانی کی شدید کمی ہے۔ 1978-79 میں پانی کی دستیابی 183 ایم اے ایف تھا۔ یہ پانی کی سب سے زیادہ ریکارڈ مقدار ہے۔ پانی کی شدید کمی ہمارے ملک کی اکانومی کے لیے دوسرا بڑا شدید خطرہ ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کے مطابق تین شرقی دریا بیاس راوی اور ستلج بھارت کے حصے میں آ ے۔ بھارت نے ان دریائوں پر بے پناہ ڈیم بنا کر پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی۔ دوسری جانب پاکستان نے اپنے حصے کے دریائوں پر ضرورت کے مطابق ڈیم بنانے میں کوتاہی کی۔اس سے زراعت کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں مل سکا۔ نتیجتا فصلوں کی مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کی جا سکی۔ پاکستان کا نہری نظام اب بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کچی نہروں سے بہت سارا پانی رستا ہے۔ یہ پانی کا ضیاع ہے۔ اس سے سیم و تھور کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ڈیموں میں گنجائش سے کم پانی سٹور ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود پانی کا90فیصد زراعت میں استعمال ہوتا ہے ۔ باقی کا10فیصد زندگی کی دوسری ضروریات پورا کرتا ہے ۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ہے ۔ ہم ابھی تک فلڈ اریگیشن سے کام چلا رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں Drip irrigation/ Sprinkle system سے کام لیا جا رہا ہے ۔ اس سسٹم سے 80-90 فیصد پانی کا ضیاع روکا جا سکتا ہے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ایک طرف اپنے آبی وسائل میں اضافہ کریں اور دوسری جانب کھیتوں میں پانی کے ضیاع کو روکیں۔ آبی وسائل میں اضافہ نئے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ یہ بہت مہنگا کام ہے۔ نئے ڈیم بنانے میں وقت بھی بہت زیادہ درکار ہوتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر ہماری زیادہ توجہ دستیاب پانی کی بچت ہونی چاہیے۔ ہم اس وقت کھیتوں میں فصلوں کا غلط انتخاب کر رہے ہیں ۔ گنا اور چاول زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں ہیں ۔ دنیا میں چینی چقندر سے تیار کی جاتی ہے ۔ ہم چینی گنے سے تیار کر کے بہت سا پانی ضائع کر دیتے ہیں ۔ کپاس کی فصل بہت کم پانی استعمال کرتی ہے ۔ ہم نے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں بھی گنا کاشت کرنا شروع کر دیا ہے ۔ سورج مکھی نہایت کارآمد فصل ہے۔ اس کی کاشت میں بھی بہت کم پانی استعمال ہوتا ہے ۔ افسوس کہ ہم نے اس کی کاشت پر توجہ نہیں دی۔ اکثر فصلوں کو ہم ضرورت سے زیادہ پانی دیتے ہیں ۔ نتیجتا سردیوں میں ہمیں فوگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پنجاب ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق Drip irrigation سے سوا لاکھ سے دو لاکھ روپے فی ایکڑ اور 50 فیصد پانی بچایا جا سکتا ہے ۔ اس سے پیداوار میں بھی 20-100 فیصد اضافہ ممکن ہے۔ اتنا پانی بچانے کے بعد ہمیں چولستان جیسے علاقوں کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ یہاں انسان اور جانور پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں ۔ دونوں ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں ۔ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ آج کل سولر ٹیوب ویل عام ہو گئے ہیں ۔ یہ اتنے مہنگے بھی نہیں ہیں۔ خاص کر انسانی زندگی کے مقابل ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ آخر کب تک ہیلن جیسے نوجوان اپنی ذاتی کوششوں سے معاشرے کے اس مظلوم طبقے تک زندگی کی بنیادی ضروریات پہنچاتے رہیں گے ۔ ان جیسے سارے نوجوانوں کیلئے داد تو بنتی ہے نا ۔