گریٹر اسرائیل کے قیام کی ابتدائ؟

صیہونی حکومت نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کردیا ہے جس میں اردن، شام، لبنان اور دیگر عرب ممالک کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے تاہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور فلسطین نے اسرائیل اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ترک خبررساں ادارے انادولو کے مطابق اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکانٹس نے ایک نقشہ شائع کیا ہے جس میں جھوٹا دعوی کیا گیا ہے کہ فلسطین، اردن، شام اور لبنان کے کچھ حصے اسرائیل کا حصہ ہیں۔عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب نے ایک اسرائیلی نقشے کی مذمت کرتے ہوئے مسترد کردیا جس میں اردن، شام اور لبنان کے علاقوں کو نام نہاد گریٹر اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔سعودی عرب نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے انتہا پسندانہ الزامات اسرائیل کے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔اسرائیل کے حوالے سے کسی مسلم ملک کی پالیسی کا یہ تعین ہی مشکل ہے کہ محولہ ملک کی اسرائیل کے حوالے سے اصل پالیسی اور بظاہر کی پالیسی میں کوئی تضاد اور فرق ہے یا یہ حقیقی پالیسی ہے اس ضمن میں جہاں یہودی پراپیگنڈے اور ذرائع ابلاغ کا کردار ہے وہاں اصل معاملہ خود اس ملک کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کا ہے خطے میں اسرائیل کا کردار اور عزائم دونوں کسی سے پوشیدہ نہیں مگر سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی حقیقتاً حکمت عملی کیا ہے اس کا درست اندازہ مشکل ہے ایک واضح صورتحال خطے کے ممالک کا اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا ہے اور دوسرا اسرائیل کی طاقت سے ان کا مرعوب ہو کر اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کی غلطی ہے جس کے باعث ا سرائیل علاقہ کے ایسے بدمعاش تھانیدار کا کردار ادا کر رہا ہے جسے روکنے والا کوئی نہیںگریٹر اسرائیل کا نقشہ اور منصوبہ 2023ء میں بھی سامنے لایاگیا تھا اور اب بھی اس کا نقشہ دہرایاگیا ہے جوکسی اچھنبے کی بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ عالم اسلام اور خطے کے ثروت مند عرب ممالک اس سلسلے میں کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں جہاںتک گریٹر اسرائیل اور اسرائیلی توسیع کے حوالے سے پیشگوئیوں کا تعلق ہے اس حوالے سے احادیث میں جن جن امور کی طرف اشارے کئے گئے ہیں معاملات اسی طرح آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور بعید نہیں کہ گریٹر اسرائیل بن جائے اور اس کے بعد خواب غفلت سے مسلمانوںکے بیدار ہونے اور یروشلم میں اسلامی جھنڈا گاڑھنے کی پیشگوئی ہویہ سب تو عقیدے کے لحاظ سے بھی متوقع ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑی اپنی تباہی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرے گی یا پھر مسلم حکمرانوں کی حمیت جاگ جائے گی اور وہ مزاحمت کا فیصلہ کریں گے بالکل اسی طرح یہ سہی جس طرح مٹھی بھر مجاہدین نے اسرائیل جیسی طاقت کو چیلنج کرکے مسلسل نقصان اٹھانے کے باوجود مزاحمت کر رہے ہیں اسرائیل کا راستہ روکنے کے لئے عالمی اداروں سے فریاد کافی نہیں اور نہ ہی اسرائیل ان کو خاطرمیں لائے گا۔

مزید پڑھیں:  کشتی حادثہ یا کچھ اور ۔۔۔۔؟