ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

امریکہ کے معروف میڈیا ادارے وال اسٹریٹ جنرل نے یہ اطلاع دی کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں قید امریکی قیدیوں کی رہائی کے لیے گوانتانامو بے میں قید کم از کم ایک ہائی پروفائل قیدی کے تبادلے پر افغان طالبان سے بات چیت میں مصروف ہے۔ امریکی وزارت خارجہ اور طالبان نے اس رپورٹ پرکوئی جواب نہیں دیا۔دریں اثناء امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رفیق خاص اور دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ایلون مسک یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے ہیں کہ امریکی حکومت طالبان کی مالی مدد کر رہی ہے۔ایلون مسک نے اپنی ایک ٹوئٹ میں ریپبلکن قانون ساز کا خط شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ تصور کریں، حکومت ہمارے ٹیکس سے ان دہشت گردوں (طالبان)کو ہر ہفتے4کروڑ ڈالر دے رہی ہے۔بظاہر تو یہ افغانستان اور امریکہ کا معاملہ ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت افغانستان میں حکومت ان لوگوں کی ہے جوامریکہ کے افغانستان میں مداخلت کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے تاہم روسی مداخلت کے دوران وہ اتحادی بھی رہے ہیں پڑوسی ملک پاکستان بھی ہر حالات میںافغانستان کے طالبان اور امریکہ کے اتحادی رہی ہے اب طالبان حکومت کی پاکستان سے تعلقات کی نوعیت کچھ اچھی نہیں جبکہ امریکہ پاکستان سے بیک وقت کام لینے اور ساتھ ہی نقصان بھی پہنچانے کے دوہرے کردار کی حامل رہی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ طالبان ایک جانب امریکہ دشمنی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری جانب ان سے امداد کی وصولی میں ان کو عار بھی نہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ طالبان پاکستان سے معاملات کے حوالے سے امریکہ سے نزدیک ہونے کی غلطی کر بیٹھے ہوں بہرحال آج کے دور میں کچھ بھی ناممکن نہیں اور یقینا پاکستان کے پالیسی سازوں کا اس کا بخوبی علم اور ادراک ہو گا حیرت اس بات پر ہے کہ طالبان جس تسلسل کے ساتھ پاکستان دشمنوں کی سرپرستی اور ان کو اپنا مہمان قراردینے سے ذرا نہیں ہچکچاتے اس کے باوجود پاکستان کی پالیسیوں میں افغانستان اور اس سے جڑے مسائل ہی ترجیح نظر آتی ہے جو امور مملکت خویش خسروان دانند کے مصداق ہی ٹھہرتا ہے ۔ طالبان کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کا مشورہ ہی دیا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان کے لئے موزوں ہو گا کہ وہ مزید محتاط رہے۔

مزید پڑھیں:  ''میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا''