سیاست میں فائنل کال نہیں ہوتی

سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور خاص کر ہمارے ہاں کی سیاست میں تو کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور اسی طرح کوئی فائنل کال بھی نہیں ہوتی، اور اس بات کا اندازہ ہم حالیہ فائنل کال کے نتائج سے بخوبی لگا سکتے ہیں، صاف نظر آرہا تھا کہ نہ کوئی تیاری کی گئی تھی اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی ، کہیں کوئی قیادت نظر نہیں آرہی تھی، کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے، مارو یا مر جاؤ ، جنازے پڑھانے کی باتیں کی گئیں،کفن پہنے گئے،کسی طرح سے بھی یہ سنجیدہ اور مہذب لوگوں کا وطیرہ نہیں ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کے بھروسے پر یہ سب کیا گیا، عمران خان اب مزید احتجاجی کالیں نہ دیں تو یہ ان کے حق میں اور ان کے حمایتوں کے حق میں بہتر ہو گا، ورنہ صاف نظر آرہا ہے کہ اگلے احتجاج کے نتائج اس سے بھی سنگین ہو سکتے ہیں، بنگلہ دیش میں کُل چار سو لوگوں کی جانیں گئیں لیکن نتائج ہمارے سامنے ہیں، تحریک انصاف پچھلے دس سالوں میں پانچ سو سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں ختم ہونے کی ذمہ دار ہے، لیکن نتائج پر سنجیدہ سوالیہ نشان موجود ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سیاسی معاملات کو سوجھ بوجھ کے ساتھ اور بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے، اور اگر احتجاج ہی کرنا ہے تو لازم ہے کہ وہ بہت منظم ہو، بامقصد اور بامعنی ہو، ہر ایک پر ہر ایک متعلق بات بالکل واضح ہو، قیادت خود موجود ہو، نظم و ضبط، اتفاق و اتحاد، اخلاص ہو اور سب سے بڑھ کر ملکی مفاد ہر دوسرے مفاد پر مقدم ہو، اس کے علاوہ بھی کئی اہم عناصر ہیں جن کے بغیر کوئی بھی احتجاج کامیاب نہیں ہو سکتا، میاں نوازشریف کو ایک بار نہیں تین مرتبہ زبردستی معزول کیا گیا لیکن انھوں نے ایک دن بھی ایسا رد عمل نہیں دکھایا، نہ جلاؤ گھیراؤ کیا، نہ کفن پہنے اور نہ ہی آگ لگا کے اس ملک کے اہم اداروں کو نشانہ بنایا جائے، بس یہی پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا، صبر و اطمینان سے اس وقت تک انتظار کیا جب تک حالات اُن کے حق میں سازگار نہ ہوگئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ملک میں مقتدرہ کی مدد کے بغیر کوئی بھی تحریک کامیابی نہیں ہو سکتی ہے، آپ نے تحریک انصاف کے مخالفین کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ یہ لوگ یہ بات چیت کیوں نہیں کرتے، مذاکرات کیوں
کرتے، سیاسی جماعتیں تو بیٹھ کر بات چیت کرتی ہیں اور ضد چھوڑ کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کیسے بات چیت کرے کہ جب ان کا خیال ہے کہ انتخابات وہ جیتے ہیں حکومت کسی اور نے بنائی ہے، اس حوالے سے یہ ایک بات اہم اور قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے جو مذاکرات یا مفاہمت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے نتائج ملک کے لئے کتنے سود مند تھے، ایسی مفاہمت کی پہلی مثال سال ٢٠٠٩ء کی ہے کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں، کراچی متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا تھا، آئے روز مار دھاڑ اور قتل عام جاری تھا، دشمنیاں عروج پر تھیں، متحدہ
الزام لگاتی تھی کہ پیپلز پارٹی کراچی والوں کے حقوق غصب کررہی ہے، پیپلز پارٹی کا الزام تھا کہ متحدہ نے شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے، ثالثی کی مدد سے دونوں جماعتوں کے مفاہمت
ہو گئی، اس وقت کے وزیر داخلہ مرحوم رحمان ملک صاحب وفد کے ہمراہ نائن زیرو پہنچے، ایک دوسرے کو گلے لگایا گیا اور شکایتوں کو ختم کرنے اور مل کر چلنے کا اعلان ہوا، اہل کراچی نے اس مفاہمت پر خوشی کا اظہار کیا لیکن اس مفاہمت کے ساتھ ہی کراچی کی تباہی کا ایسا آغاز ہوا کہ جس نے تھمنے کا نام نہیں لیا، زمینوں کی بندر بانٹ شروع ہوگئی، پانی کے مسائل شدید ہوگئے، اداروں میں دھڑا دھڑ بھرتیاں ہوئیں اور انھیں تباہ کردیا گیا، اندر اندر کراچی کو بیچ ڈالا گیا اور لُوٹنے والوں نے اربوں روپے بنائے اور ہمیشہ کے لیے ملک سے بھاگ گئے، یہ دو سیاسی جماعتوں کی بات چیت اور مفاہمت کا نتیجہ تھا، ایسی ہی مفاہمت کی ایک اور مثال مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں، پرویز مشرف کے خلاف یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور پھر بات چیت اور مفاہمت سے میثاق جمہوریت نامی معاہدہ وجود میں آیا جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آئندہ کسی قسم کی سیاسی جوڑ توڑ کا ساتھ نہیں دیا جائے گا، اسی مفاہمت کے کچھ عرصے بعد ہی نواز شریف نے ججز بحالی تحریک چلائی اور پھر عدالت جاکر پیپلز پارٹی کا وزیراعظم فارغ کروایا، پیپلز پارٹی نے پنجاب کی صوبائی حکومت کے خلاف گورنر راج لگایا، یہ دونوں جماعتیں،
باقاعدہ مفاہمتی معاہدہ کرنے کے باوجود، شروع سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی رہی ہیں، ن لیگ نے اپنی٢٠١٣ء میں بننے والی حکومت کے دور میں ہی آئی پی پیز کے حوالے سے ایک انتہائی نقصان دہ معاہدہ کیا جس نے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کو بے قابو کردیا جو آج تک بے قابو ہے، اس بدترین معاہدے پر، پیپلز پارٹی صرف نمائشی بیانات تک محدود رہی کیونکہ درپردہ مفاہمت چل رہی ہے، اور اس مفاہمت کا مقصد جمہوریت یا عوام کی بہتری نہیں تھی، بلکہ اس کا اصل مقصد آپس میں بندر بانٹ کرنا تھا، پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ان دو مفاہمتوں سے صرف ان جماعتوں کے مالکان کا فائدہ ہوا اور ملک اور عوام مزید تباہ و برباد ہوگئے، اور حال ہی میں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بھی مفاہمت کی اور اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہیں، ستر سے زیادہ بل پاس کئے گئے جن میں سے ایک بھی عوام کے لئے نہیں تھا، بندر بانٹ فارمولے کو مفاہمت و مذاکرات کا نام دے کر عوام کو بیوقوف بنایا گیا اور مہنگائی کے ایسے جن کے سامنے ڈال دیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی، یہ دوسری وجہ ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف ان جماعتوں کے ساتھ ان کی مرضی کی مفاہمت نہیں کرنا چاہتی، مذاکرات ہوں یا مفاہمت، اپنی اصل روح میں ہوں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں، لیکن اگر مذاکرات نہیں ہو رہے تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آخری حد کو چھو لیا جائے، سیاست میں کوئی فائنل کال نہیں ہوتی، اور ایسی فائنل کال بالکل بھی نہیں ہوتی کہ جس میں نہ ہی کوئی قیادت ہو اور نہ کوئی ہم آہنگی اور نہ ہی کوئی نظم وضبط، اور اس کا انجام سب کے سامنے ہے، اور ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا جمہوریت کی بحالی کے لئے فائنل کال پر نکلنے والوں کی اپنی زندگی میں بھی کہیں جمہوریت نام کی کوئی شے موجود ہے، تحریک انصاف کے اپنے سیاست دانوں کی اب تیسری چوتھی نسل سیاست میں ہے اور یہاں میرے یا آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  اچھی کوشش