ویب ڈیسک: پشاور سنٹرل جیل میں گنجائش سے 700 قیدی زیادہ رکھے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے، پشاور سنٹرل جیل میں 2500 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ موجودہ حالات میں وہاں 3200 قیدی موجود ہیں، اسی وجہ سے قیدیوں کو سامان کی رسائی بھی مشکل پڑ رہی ہے۔
مشرق ٹی وی کے پروگرام مشرق راونڈ اپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی جیل خانہ جات ہمایون خان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جیل میں قیدی زیادہ رکھے گئے ہیں، پشاور سنٹرل جیل میں 2500 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 3200 قیدی رکھے گئے ہیں۔ اس وجہ سے دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں موجود پشاور، بنوں، ڈی آئی خان، مردان اور ہری پور وغیرہ کے سنٹرل جیلوں میں جہاں قیدی کم ہیں اور گنجائش زہادہ تو ان زیادہ قیدیوں کی وہاں کھپایا جائے گا۔ ان میں زیادہ تر قیدی اپنے علاقے کی جیل میں جانے کی بھی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اپنے علاقے کے لوگوں یا گھر والوں سے ملاقات میں آسانی رہے۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ جیل میں مختلف قسم کے قیدی ہوتے ہیں، جیسے انڈر ٹرائل یا پھر سزائے موت والے، ان میں بعض ایسے بھی قیدی ہوتے ہیں جن کی قید کو 5 سال کا عرصہ ہو چکا ہوتا ہے، تو انہیں پشاور سنٹرل جیل میں رکھا جاتا ہے۔
ہمایون خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ قیدیوں کی ری ہیبلی ٹیشن کا کام سوشل ویلفیئر کا ہے جو معزور افراد یا منشیات میں گھرے لوگوں کی فلاح اور علاج معالجہ کیلئے اقدامات کرتے ہیں لیکن ہم نے جیلوں میں بھی ری ہیبلی ٹیشن کا کام شروع کر رکھا ہے۔ صوبائی کابینہ سے ہم نے اس سلسلے میں منظوری بھی لے رکھی ہے کہ جیلوں میں ری ہیبنلی ٹیشن کا کام کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں منشیات کے عادی قیدیوں کے علاج معالجہ کیلئے جہاں علاج کا بندوبست کیا گیا ہے، وہیں ان ری ہبیلی ٹیشن مراکز میں ماہر نفسیات بھی موجود ہوتے ہیں۔
قیدیوں کو ہنر سکھانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی ہنرمندی پر بھی توجہ دی جا رہی ہے، تاکہ یہ باہر نکل کر معاشرے کا ایک مفید شہری بن سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں 14 ہزار کے قریب قیدی ہیں، ان میں ہزار یا 15 سو کے قریب قیدی ہنر سیکھنے کے بعد باقاعدہ کام بھی کر رہے ہیں، اس حوالے سے ایک بات واضح کرتا چلوں کہ یہ سب اس لئے کیا جانا مقصود ہوتا ہے کہ جب یہ قیدی باہر نکلیں تو معاشرے کا فعال فرد بن کر رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور سنٹرل جیل میں پشاوری چپل تیار کئے جاتے ہیں، اس سلسلے میں باہر سے کاریگر اور ماہرین ہائر کئے گئے ہیں، جو قیدیوں کو چپل سازی کا ہنر سکھاتے ہیں، جیل میں اس کے علاوہ کپڑا سازی کا کام بھی سکھایا جاتا ہے، اور بعد از تعلیم اس کی تیاری کا کام بھی کیا جاتا ہے، جس میں چارسدہ کا مشہور کپڑا خامتا اور کھدر بھی تیار کیا جاتا ہے۔
ہمایون خان نے بتایا کہ متعدد قیدی کپڑا سازی کا کام سیکھ رہے ہیں، ان کا تیار کردہ مال جب مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والی آمدن میں ان ہنر مند قیدیوں کو بھی 30 فیصد حصہ دیا جاتا ہے، جنہوں نے اس کی تیاری میں کام کیا ہوتا ہے۔
ہری پور جیل میں فرنیچر سازی کا کام کیا جاتا ہے، ہم اس سلسلے میں سرکار سے ڈیمانڈ لیتے ہیں، پھر جتنی تعداد میں میز کرسیاں درکار ہوتی ہیں، وہ یہیں تیار کی جاتی ہیں۔
ایبٹ آباد جیل میں شاپنگ بیگز تیار کئے جاتے ہیں، جبکہ مردان جیل میں ماربل ڈیکوریشن پیسز تیار کئے جاتے ہیں، کمبل و شال سازی کا کام سوات جیل میں کیا جاتا ہے، اس پر ہزار 15 سو ہنر مند قیدی کام کر رہے ہوتے ہیں۔
معاون خصوصی جیل خانہ جات ہمایون خان نے مزید بتایا کہ پشاور میں ایک بڑا خاکسار سٹور ہے، اس میں جیل میں تیار کیا جانے والا زیادہ تر سامان فروخت کیلئے پڑا ہوتا ہے ۔ اب جیل میں تیار ہونے والے سامان کو فروخت کرنے کیلئے آن لائن طریقہ کار بھی اپنایا جا رہا ہے، اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔
منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے ری ہیبنلی ٹیشن مراکز ہری پور، ایبٹ آباد، سوات ، مردان، ڈی جی خان اور پشاور میں فعال ہیں، متذکرہ بالا یہ جیلیں بہت پرانی ہیں، ان میں بعض 1854 اور بعض 1896 زمانے کی ہیں، ان میں یہ سہولیات پہنچانا مشکل ہے، تاہم نئی جو جیلیں بنائی جا رہی ہیں، ان میں قیدیوں کیلئے ٹریڈ سنٹرز اور ری ہیبلیٹیشن سنٹرز بنائے جا رہے ہیں، پشاور میں قیدیوں کو باقاعدہ ٹریڈ سکھایا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ہمایون خان نے بتایا کہ زنانہ اور بچوں کو جیل میں دیگر قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ہے جبکہ منشیات کے عادی افراد کیلئے الگ جگہ مختص ہے، ان منشیات کے عادی قیدیوں کو 60 سال سے زیادہ عمر والے قیدیوں سے بھی الگ رکھا جاتا ہے۔
پشاور سنٹرل جیل میں گنجائش سے 700 قیدی زیادہ رکھے جانے کے انکشاف پر انہوں نے اعتراف کیا کہ پشاور سنٹرل جیل میں 2500 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 3200 قیدی رکھے گئے ہیں۔ جیل میں قیدیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں مختلف مسائل جنم لیتے ہیں، جیسے ان قیدیوں کیلئے سامان کمبل، چادر ، رضائی اور کھانے پینے کا سامان کم پڑ جاتا ہے۔
قیدیوں سے ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ شیشے کے آر پار ٹیلی فون کے ذریعے قیدیوں سے بات چیت کا بندوبست کیا جائے، اس سہولت میں آواز بالکل صاف سنائی دیتی ہے۔
مردان ، مانسہرہ اور ایبٹ آباد کی جیلوں میں ہم نے قیدیوں سے ملاقاتیوں کی بات چیت کے حوالے سے اقدامات شروع کئے ہیں، انشاء اللہ ملاقاتیوں کے قیدیوں سے بات چیت کے حوالے سے یہ سسٹم جلد ہی تیار کر لیا جائیگا۔
ہمایون خان نے بتایا کہ عمران خان ہمیں جیل سے ہدایات دے رہے ہیں کہ قیدیوں کے بنیادی حقوق کا خاص خیال رکھا جائے، خصوصی طور پر ان کی خوراک اور استراہت کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے بھی اس سلسلے میں اہم ہدایات دی جا رہی ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایات کے مطابق ہم قیدیوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتے ہیں، انہیں صبح ناشتے میں چائے پراٹھا، کھانے میں چاول، چکن اور دیگر ضروری اشیا دی جاتی ہیں۔ میٹھے چاول خصوصی طور پر قیدیوں کی خوراک میں شامل کئے گئے ہیں۔
قیدیوں سے برے سلوک کے حوالے سے زیرگردش خبروں پر ان کا کہنا تھا کہ جب سے میں نے چارج سمبھالا ہے، تب سے ان چند مہینوں میں ہم نے جیلوں پر چھاپوں کا کام شروع کر رکھا ہے، ان میں سرپرائز راونڈ بھی لگائے جاتے ہیں، اور اس دوران قیدیوں سے برے سلوک پر ہم نے چند افسران معطل بھی کئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جیلوں کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے، وہاں لگے کیمرے ہمیں ہر لمحے جانکاری دے رہے ہیں۔ سیکورٹی اور ویڈیو لنک پر بات چیت کے حوالے سے کام شروع کیا گیا ہے جو جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا، اور جلد ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اس کا افتتاح کرینگے۔
Load/Hide Comments