معیشت پرسیاست

وزیراعظم شہباز شریف نے ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ پراطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں بیرون ملک پاکستانیوں نے 33 فیصد زائد رقوم بھیجیں۔ مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دسمبر 2024 میں 3.07 ارب ڈالر وطن بھیجے اور دسمبر 2024 کی ترسیلات دسمبر 2023 سے 29 فیصد زائد ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب سے سب سے زیادہ 77 کروڑ اور متحدہ عرب امارات سے 63 کروڑ ڈالر بھیجے گئے۔ اس کے علاوہ برطانیہ سے 45 کروڑ ڈالر، یورپ سے 36 کروڑ ڈالر اور امریکا سے 28 کروڑ ڈالر بھیجے گئے اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستانیوں نے 33 فیصد زائد رقوم بھیجیں ۔ دریںاثناء پاکستان تحریک انصاف نے وفاقی حکومت کے معیشت میں بہتری کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ قراردے دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہموجودہ دور میں مہنگائی میں ریکارڈ کمی نہیں بلکہ ا ضافہ ہوا ہے ۔کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ ان وقت میں غربت کی شرح 12تھی فیصد ان کے وقت میں 13 فیصد ہے، ہمارے دور میں 31 ارب جبکہ 2024ء میں 26 ارب ایکسپورٹ ہے، 2022ء میں غربت 35 فیصد تھی ان کے دور میں 44 فیصد ہے، شرح سود بھی ان کے دور میں بڑھ گئی ہے 408 ارب سے زیادہ یہ خسارے میں جا رہے ہیں ان کے دور میں پی آئی اے سمیت سارے ادارے خسارے میں جارہے ہیںاگرچہ معیشت اور معاشی اعداد و شمار سیاسی چپقلش کے لئے پیش کرنا مناسب نہیں لیکن ہر دو جانب دعوے اوردوسرے کو مطعون کرنا دور حاضر کے رہنمائوں کا وتیرہ بن چکا ہے جس سے قطع نظرقوم کے اداروں کو انہوں نے اپنے پاؤں پر کھڑا تو شاید نہ کیا ہوتا ہممہنگائی واحد ہندسے پر ضرور آئی ہے لیکن ابھی یہ اس قدر بھی نہیں کہ عوام کے لئے راحت اور آسانی کی حد تک ہو عوامی نقطہ نظر سے اس کے واحد ہندسے تک آنا اہم نہیں بلکہ عوام مہنگائی میں مزید کمی کی امید رکھتے ہیں شرح سود میں مسلسل کمی کے باوجود بھی اس کے اثرات کا ہنوز عوامی سطح پر انتظار ہے ۔ سٹاک مارکیٹ میں بہتری نظر آئی ہے مگر پانچ ماہ کے دوران اس میں صرف دو فیصد ہی کا ا ضافہ ہوا بہرحال شرح سود میں کمی کے باعث سود کی ادائیگیوں کا کم ہوتا بوجھ اور بنیادی توازن میں بہتری آئی جبکہ گزشتہ مالی سال کے 0.4فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے سٹیٹ بنک کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ شیڈول بنکوں سے سرکاری قرضے لینے میں نمایاں کمی ہوئی ہے تاہم دوسری جانب وفاقی قرضوں میںمسلسل ا ضافہ اور مزید قرض لینے کی ضرورت وہ مالیاتی چیلنجز ہیں جس کی موجودگی میں بہتری کے دعوئوں کو چیلنج کرنے کی نہ صرف گنجائش ہے البتہ یہاں اس امر کو ضرور مد نظر رکھنا چاہئے کہ تمام ترنامساعد حالات اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود کم از کم اس حد تک معاملات پر گرفت مضبوط ہو گئی ہے کہ معاشی مشکلات کے سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے کی باگیںہاتھ میں آگئی ہیںجسے مزید ساختی اصلاحات کے ذریعے بہتری کی جانب موڑا جا سکتا ہے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ زرمبادلہ کا نقصان رک گیا ہے ملک میں زرمبادلہ ذخائر تقریباً تین گنا ہو گئے ہیں ترسیلات زر میں تمام ترداخلی انتشار اور معیشت کو سیاست زدہ کرنے کی کوششوں کے باوجود اضافہ کارجحان جاری ہے ان تمام مثبت سرگرمیوں کے باوجود تحریک انصاف کے رہنمائوںکی جانب سے اعداد و شمار کے ساتھ حکومتی دعوئوں کوجوچیلج کیا ہے اس کا حکومت کی جانب سے اعداد و شمار کے ساتھ جواب دینے کا عمل باقی ہے البتہ اگر ملکی وغیرملکی ذرائع ابلاغ کے تجزیوں اور رپورٹوں کو کسوٹی مانا جائے تو حکومتی دعوئوں کی وقعت مسلمہ ہے بہرحال معاشی اعداد و شمار اور اس کو رد کرنے والے دعوئوں سے قطع نظر وطن عزیز میں معیشت جیسے غیر سیاسی اور بنیادی ملکی عنصر کو سیاست زدہ کرنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے نہ حکومت کو اس میدان میں تھوڑی سی بہتری آنے پر بغلیں بجا کر مخالفین کامنہ چڑانے کی غلطی کرنی چاہئے اور نہ ہی سیاسی مخالفت پر ایسی اپیلیںہونی چاہئیں جس کے اثرات سے ملکی معیشت واقتصاد متاثر ہو ۔ معیشت کو ہر دو فریق سیاست سے دور رکھیں اور کوشش ہونی چاہئے کہ سیاسی مخالفت اور مخاصمت کے باوجود معاشی شعبے میں ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر اگر دستگیری اختیار کرنے کا ظرف نہ ہو توکم از کم پیر پر کلہاڑی مارنے کا عمل بھی نہ ہو۔ معاشی ترقی کی ڈینگیں مارنے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر ساختی اصلاحات پر توجہ اور بہتر فیصلوں سے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے اقدامات پر مزید توجہ ہونی چاہئے سیاسی اختلافات کی اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے اور ملک میں سیاسی و حکومتی استحکام پیدا ہو تو اس کے معیشت پر اثرات سے معاشی مسائل سے نکلنے کا راستہ نکل سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  اہل ِ سیاست! میں اور تو کی تکرار سے آگے بڑھیئے