قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری کے عمل میں تاخیریافیصلے سے رجوع کرنے کے بعد اس کی بحالی کے لئے اقدامات اچھی پیشرفت ہے امرواقع یہ ہے کہ پی آئی اے جیسا قومی ادارہ تباہی کے کنارے پہنچادیاگیاتھا جسکی بنیادی وجہ اسے پیشہ ورانہ کاروباری طور پر چلانے کی بجائے دفتر روزگار میں تبدیل کرنا اور بعض ایسے فیصلے تھے جسے کرنے والے خودفضائی کمپنی کے مالکان حصہ دار یاپھر مبینہ طور پر ان کے ایجنٹ تھے ساتھ ہی ساتھ اس کے کارکنوں کی سستی و نااہلی اوربدعنوانی میںملوث ہونے کا عمل بھی نظر اندازکرنے کے حامل غفلت نہ تھی اس کے پائلٹوں کے لائسنسز پراعتراضات کرکے تو ہوا بازی کے وزیر نے گویا اس کا بھٹہ ہی بٹھا دیا تھا نیز مختلف حفاظتی و دیگر رقابتوںکے باعث قومی فضائی کمپنی کے روٹ بھی بندش کی زد میں آئے اپنی فضائی کمپنی چلانے کے لئے پی آئی اے کے منافع بخش روٹ بند کرنے کے اقدامات بھی کوئی کہانی نہ تھے اب جبکہ خدا خدا کرکے یہ چلنے کے قابل ہونے لگی ہے اور یورپ کے لئے فلائٹ آپریشنز ساڑھے چارسال بعد بحال ہوگیا ہے تو ایک اشتہار کو بنیاد بنا کر دانستہ ونادانستہ اسے دوبارہ شکار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں سادہ لوحی کی گنجائش رکھنے کے باوجود سیاسی اداکاروں اور کاروباری رقابت رکھنے والی کمپنیوں کا پس پردہ پراپیگنڈے میں ملوث ہونا خارج ازامکان نہیں بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی صورت میں بندر کے ہاتھ میں ایسا استرا آگیا ہے کہ چھری چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی تختہ مشق میسر آہی جاتا ہے قومی فضائی کمپنی اس ملک کی پرچم بردار کمپنی اور عوام کی ملکیتی کمپنی ہے اسے جانے انجانے طور پر نشانہ بنانا اپنے پیر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ جوبھی تنقید ہو اور غلطی کی نشاندہی مقصود ہو وہ ضرور کی جائے مگرتضحیک کا نشانہ بنانے سے گریز ضروری ہے صرف اس موقع پرہی نہیں بلکہ ہر موقع پرسوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال ہونا چاہئے۔
