ایجوکیشن کوڈ میں ترامیم

ایجوکیشن کوڈ میں ترامیم کے مسودے میں شامل نکات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں جس میں تفصیلی طورپرتعلیمی اداروںکے ماحول تدریس اور دیگر امور کا باریک بینی سے جائزہ لے کراصلاحات اور تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جس کی ضرورت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں امر واقع یہ ہے کہ حکومت نے اصلاحات بلکہ بھرتیوں تک کی حد تک تو تمام ممکنہ اقدامات میں پیچھے نہیں تہہ درتہہ انتظامات اور ساختی نظام موجود ہے لیکن جب بات عملدرآمد کی آتی ہے تو وہ بری ناکامی محکمہ تعلیم اور اس کے ذیلی و ماتحت اداروں کی پیشانی پراس طرح لکھی ہوتی ہے کہ ساری محنت اکارت گئی ہوتی ہے سرکاری اور نجی سکولوں میں ہونے والی بدانتظامیوں اور طلبہ کی مشکلات کے حل کے لئے مجوزہ اقدامات کا نفاذ اور اس مسودے کے نکات پرعملدرآمد بڑی کامیابی متصور ہو گی مگر اصل سوال بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کا ہی ہے اس وقت کس طرح گلی کوچوں میں نجی سکول کس معیار وسہولیات اورکس درجے کے اساتذہ کے ساتھ چلائے جارہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ امر نہیں ساتھ ہی سرکاری سکولوں کی کیا حالت زار ہے اس میں انتظامیہ اور حکومتی نواقص کا کس قدر حصہ اور اساتذہ کس حد تک ذمہ دار ہیں اس پر اگر حکومت متوجہ ہوتی ہے اور جومسودہ تیار کیاگیا ہے اس پر سرکاری سکولوں میں عملدرآمد یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری ہوتی ہے تویہ نظر آنے والے اصلاحی اقدامات میں شمار ہوں گے جس کے مثبت اثرات سے تعلیمی میدان میں ترقی ممکن ہو سکے گی ۔ یہ نکات بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ ہر تسلیم شدہ نجی اور سرکاری سیکنڈری سکول سائنس اور کمپیوٹر کے مضامین کی تدریس کیلئے ضروری سہولیات فراہم کرے گا اور سکول میں لیبارٹری کی مناسب سہولیات فراہم کرے گا۔پرائیویٹ سکولوں میں کم از کم سٹاف اور پرائیویٹ سکولوں میں اساتذہ کا کم از کم تنخواہ کا سکیل سرکاری سکیل کے برابر رکھا جائے گااور طلبہ کے لئے وظائف کا انتظام کیا جائے گا ہر ہائی سکول کو ہفتے میں ایک بار ضلعی اور صوبائی سطح کے مقابلوں کی تیاری کے لئے انٹرا اور انٹر کلاسز مقابلوں کا اہتمام کرنا چاہئے اوریہ سرگرمیاں ایک باقاعدہ خصوصیت ہونی چاہئیں اور سال بھر منعقد ہونی چاہئیں ۔سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں دوسری جانب نجی سکولوں میں تعلیم کو جس طرح تجارت بنا دیاگیا ہے اور ایجوکیشن مافیا جس طرح تعلیم کے کارخانے چلا رہی ہے ان کے لئے ان نکات پر عملدرآمد مشکل نہیں ہوناچاہئے لیکن جہاں سرکاری اداروں میں چشم پوشی و نااہلی اور نجی اداروں میں ہوس کو پوجا جاتا ہو وہاں اصلاحات کے نفاذ کے لئے جس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے اس کی کمی ہے۔

مزید پڑھیں:  اہل ِ سیاست! میں اور تو کی تکرار سے آگے بڑھیئے