اپنوں کے جامے میں اغیار

وطن عزیز میں جہاں دہشت گردی اور ہتھیار اٹھائے افراد سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہے وہاں دوسری جانب سوشل میڈیا پرپراپیگنڈا اور فکری دہشت گردی پر آمادہ قوتوں کا مقابلہ بھی کرنے کی ذمہ داری سے صرف نظر ممکن نہیں خیبر پختونخوا میں پختونوں کے غم خواروں کو دہشت گردی اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے تو کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کی سرگرمیاں اور پراپیگنڈے بالحکمت ان قوتوں کے لئے باعث تقویت ہونے کاعمل جاری ہے جہاں صوبے میں دہشت گردی کی عفریت کا مقابلہ ہوتے ہوئے دہائیاں ہو گئیں وہاں مسائل و مشکلات اور عوام میں محرومیوں کا ہونا بھی فطری امر ہے جس کا پراپیگنڈا کرکے دوریاں اور نفرت کی فضا پیدا کی جارہی ہے مشکل امر یہ ہے کہ بعض عناصر بجائے اس کے کہ ان محرومیوں کی ذمہ داری سیاسی قیادت پر ڈالیں اس کا رخ بھی دوسری جانب موڑنے کی پوری کوشش میں مذموم پراپیگنڈ ا کرنے میں مصروف ہیں وہ عوام کو یہ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں گویا فساد کی جڑ دہشت گرد نہ ہوں بلکہ دہشت گردوں کوقبر میں اتارنے والے اس کے ذمہ دارہوں۔ مختلف اوقات میں مختلف ناموں اور پلیٹ فارم سے یہ عمل ہوتا آیا ہے اب اس کا جھنڈا ایک نام نہاد قوم پرست تنظیم نے اٹھایا ہے۔
ریاست پاکستان میں انتشار اور تقسیم پھیلانے کی غرض سے 2018میں قائم ہونے والی اس تنظیم کی سرگرمیوں کا محور ہمیشہ سے ہی ریاست مخالف ایجنڈہ رہا ہے ۔ کالعدم تنظیم نے روز اول سے تقسیم اور تفرقہ کی سیاست کی ہے۔ کبھی لر و بر یو افغان کا نعرہ لگا کر تو کبھی اپنے جلسوں میں ریاست اور فوج مخالف نعروں سے تو کبھی اپنے جلسوں، جلوسوں اور احتجاج میں افغانستان کے جھنڈے لہراکر کالعدم تنظیم کا اولین مقصد پشتونوں کے ذہنوں میں ریاست اور فوج کے لیے نفرت پیدا کرنا ہے۔ اسی مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اس کا سرغنہ محب وطن اور سادہ لوح غیور پشتون قبائل کو ورغلانے میں مصروف ہے۔ مزید برآں محولہ تنظیم” لر او بر یو افغان”کا نعرہ لگا کر پختونوں کے حقوق کے ترجمانی کا دعوی کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کالعدم تنظیم کے اس نعرے کے پیچھے ذاتی مفادات اور غیر ملکی ایجنڈا کارفرما ہے۔اسی حوالے سے اگر دیکھا جائے گواس کا سب سے بڑا مطالبہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فری بارڈر یعنی آزاد سرحد کا قیام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان کے شہری بغیر کسی ضابطے یا قانون کے پاکستان میں داخل ہو سکیں۔ جو کہ کسی بھی طریقے سے ممکن نہیں۔ ان کا یہ مطالبہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہی نہیں بلکہ اس سے دہشت گردی کوبھی فروغ ملے گا۔ یاد رہے افغانستان کی سرزمین ماضی میں بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کی سرحدوں کو غیر محفوظ بنانے کا مطلب یہ ہوگا کہ دہشت گردوں کو کھلم کھلا پاکستان آنے کا موقع دیا جائے۔افغانستان نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس کی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ، ستمبر 1960میں افغان فوج نے باجوڑ پر حملہ کیا، مئی 1961 میں ہزاروں افغان فوجیوں نے خیبر، جندول اور دیگر علاقوں پر حملے کیے۔ اور آج تک وہ پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ ان تمام کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانیوں کا ساتھ دیا ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کی بنیاد پر افغانستان کی مدد کی ہے، خاص طور پر قدرتی آفات کے دوران۔
حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان نے متاثرہ افغان عوام کی مدد کے لیے بھرپور کردار ادا کیا اور ہزاروں کمبل، خیمے، غذائی اشیا، اور دیگر امدادی سامان بھیجا تاکہ ان کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ حکومت پاکستان نے 50000 کمبل، 30000 خیمے، 10000 خشک خوراک کے پیکٹ،50ٹن ادویات، 100,000 لیٹر صاف پانی، 25,000 گرم کپڑے، 50,000 پانی کی بوتلیں اور 100 افراد پر مشتمل امدادی عملہ فراہم کیا۔ اس کے علاوہ اس وقت تقریبا 4000 افغان طلبا پاکستان میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بغیر کسی پابندی کے ریاست نے انہیں کاروبار اور کام کے مواقع فراہم کیے ہیں، خیموں کی بجائے رہنے کے لیے مکان فراہم کیے ہیں.پاکستان نے افغانستان میں صحت کی سہولیات قائم کی ہیں جن میں تین ہسپتال ہیں، ان ہسپتالوں میں 200 بستروں پر مشتمل جناح ہسپتال کابل80بستروں پر مشتمل نشتر کڈنی سنٹر جلال آباد، اور100 بستروں پر مشتمل نائب امین اللہ خان لوگر ہسپتال ہے.تقریبا 8000-10,000 افغان مریض روزانہ کی بنیاد پر علاج و معالجے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ 20,000۔ 25,000 افغان طورخم، غلام خان، خرلاچی، چمن اور شملزئی کراسنگ پوائنٹس کے ذریعے پاکستان آتے ہیں ۔ پاکستان نے ہمیشہ ہر مشکل حالات میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ وظائف کی فراہمی کے علاوہ، پاکستان نے کابل میں رحمان بابا اسکول اور ہاسٹل، کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس، ننگرہار یونیورسٹی جلال آباد میں سرسید سائنس بلاک اور بلخ یونیورسٹی میں لیاقت علی خان انجینئرنگ بلاک تعمیر کیا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے حالات کا موازنہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں امن، تعلیم اور ترقی کے مواقع موجود ہیں۔ اس کے برعکس افغانستان عدم استحکام، جنگ اور غربت کا شکار ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام کو ایک روشن اور محفوظ مستقبل چاہیے، نہ کہ انتشار اور پسماندگی کالعدم تنظیم نے اپنے بیانات اور اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ اس کا ایجنڈہ پختون عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں تفرقہ پیدا کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محولہ عناصر پختون عوام کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ وہ امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پختون عوام ایسے عناصر سے ہوشیار رہیں جو انہیں نفرت اور تفرقے کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  محبت کیا صرف یورپ کی میراث ہے