ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا ، لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ویسے بھی بزرگوں کا قول ہے کہ جب بات محبت اور پیار سے حل ہو جائے تو بھلا خواہ مخواہ پنگے بازی کی ضرورت ہی کیا ہے ایک اور مقولہ یہ بھی ہے کہ فلاں کو ماں نے پوتڑوں ہی میں سمجھدار اور عقلمند بنا رکھا ہے اگرچہ اس کے برعکس ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ جسے ہندکو زبان میں”پوتڑیاں دا وگڑا ہویا” کہہ کر اس کی منفی حرکتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے ، تاہم جس کا تذکرہ مقصود ہے اسے ماں نے پالنے ہی میں سمجھداری سکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور اس نے زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے جو وتیرہ اختیار کر لیا ہے اس سے اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ ایک دن وہ بہت بڑا آدمی بنے گا بہت آگے جائے گا یعنی بہت ترقی کرے گا اس سے پہلے کہ ہم اس بچے کی عقلمندی پر تبصرہ کریں ہمیں اور بچہ یاد آگیا ہے جس کے بارے میں ہم اپنے لڑکپن ہی سے ایک لطیفہ نما کہانی سنتے آتے ہیں ممکن ہے یہ کہانی آپ تک بھی پہنچ چکی ہو کیونکہ لطیفے کسی ایک جگہ منجمد نہیں رہتے بلکہ سفر کرتے رہتے ہیں بلکہ یہ سفر کسی خاص معاشرے تک بھی محدود نہیں رہتا اور اکثر ایک خطے میں دوسرے تک یہ لطائف تھوڑے بہت فرق سے کسی نہ کسی طور پہنچتے رہتے ہیں تو وہ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ ایک بچہ پڑھائی لکھائی میں پھسڈی واقع ہوا تھا ذہنی طور پرغبی تھا اور اپنی نالائقی کی وجہ سے کلاس میں نمایاں تو تھا مگر منفی انداز میں ایک بار جب وہ سالانہ امتحان میں پرچہ دینے بیٹھا تو اس سوال کے جواب میں کہ ”دنیا گول ہے”اس کو مثالوں سے ثابت کیجئے اس نے جواب میں لکھا کہ ”عینک لگا کے دیکھئے سوج بھی گول ہے ، عینک لگا کے دیکھئے ، چاند بھی گول ہے ، عینک لگا کے دیکھئے پہیہ بھی گول ہے اور یوں عینک لگا کے دیکھئے کو سند قراردیتے ہوئے اس نے مزید کئی مثالیں دے کر دنیا کے گول ہونے کے ثبوت پیش کر دیئے ٹیچر نے پرچہ دیکھ کر مارکنگ کے حوالے سے لکھا عینک لگا کے دیکھئے انڈہ بھی گول ہے یوں بے چارے کو استاد نے انڈے سے نواز دیا حالانکہ انڈا گول نہیں ہوتا اور اسے بیضوی(انڈے کی شکل کا) قراردیا جاتا ہے مگر معنوی لحاظ سے صفر سمجھا جاتا ہے ، اب آتے ہیں اس بچے کی جانب جس کے تذکرے سے کالم کی ابتداء کی تھی لیکن اسی حوالے سے ایک اور لطیفہ نماکہانی اور بھی ہے وہ بھی سینہ بہ سینہ سفر کرتے ہوئے چلتا رہا ہے ، اس کہانی میں بھی استاد شاگرد کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جب ایک لڑکے نے اپنے ٹیچر کو اپنے اوپر”رحم” کھانے کی درخواست یوں کی کہ
خزانے کی کنجی ترے پاس ہے
اگر پاس کر دے تو کیا بات ہے
ٹیچر نے اس کے پرچے پر جواب لکھتے ہوئے اسے فیل کر دیا کہ
کتابوں کی گٹھڑی ترے پاس تھی
اگر پڑھ ہی لیتے تو کیا بات تھی
یہ ساری باتیں لطیفے یوں یاد آئے کہ گزشتہ روز ایک خبر پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اگلے روز اخبارات میں بھی شائع ہو گئی جو کچھ یوں ہے کہ چیئرمین انٹر میڈیٹ بورڈ کراچی اشرف علی شاہ نے میڈیا سے کہا کہ انٹر بورڈ ا متحانات میں کئی طالب علم ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی امتحانی کاپیوں میں گانے ، کہانیاں اور صرف سوالنامہ لکھا تھاجبکہ ایک بچے نے کاپی میں ہزار روپے کا نوٹ رکھا اور لکھا میری گنجائش اتنی ہی ہے پلیز مجھے پاس کر دیں اوپر دیئے گئے ان تمام مثالوں میں طالب علموں کی نالائقی کے حوالے سے نواب مرزا داغ دہلوی کا یہ شعر بڑا وقیع لگتا ہے کہ
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغ
جولوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں!
یہ وہی لوگ نظر آتے ہیں جو ویسے تو کچھ نہیں کرتے البتہ کمال ضرور کرتے ہیں، اب دیکھیں نا یہ کمال نہیں ہے کہ پرانے دور کے سادہ لوح شاگردوں کی طرح اپنے استادوں کے منت ترلے کرنے تک خود کو محدود کرنے سے آگے بڑھ کر اب پرچوں کی کاپی میں بساط بھر صرف ایک ہزار روپے کا نوٹ رکھنے تک چلے آتے ہیں قصور اس نوجوان کابھی نہیں ہے بے چارہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہو گا اور اپنی ”حیثیت” کے مطابق صرف ہزار روپے ہی خرچ کر سکتا تھا حالانکہ ہمارے ہاں تو لوگ اپنے بچوں کی خاطر پورے پورے امتحانی ہال خرید لیا کرتے ہیں ہم کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں(اگرچہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے اس لئے ان کے نام ہم ظاہر نہیں کریں گے ) جو پرچے پاس کرنے کے لئے چیک کرنے والوں تک رسائی حاصل کرکے ایک خاص امیدوار کوپاس کرانے کے لئے طویل سفر اختیار کرنے سے بھی باز نہیں آئے ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک پرائمری کے ٹیچر (مرحوم) کے پشاور کے ایک صحافی (مرحوم)کے ساتھ بڑے گہرے دوستانہ تعلقات تھے وہ ٹیچر بے چارہ بی اے کے امتحان میں شامل ہوامگر مرحوم کی مبلغ علمیت بس ”گوارا” ہی تھی جبکہ اس دور کے ڈائریکٹر سکولزکے ساتھ کسی بات پر ان کی ان بن ہو گئی تھی اور ان کا تبادلہ شہر سے مضافات کے ایک سکول میں اس بنیاد پر ڈائریکٹر نے کر دیا تھا کہ جس سکول میں وہ پڑھاتے تھے وہاں ان کی تعلیمی استعداد کے مطابق اسامی موجود نہیں تھی ، وہ اپنے صحافی دوست کے پاس آئے کہ اسے اس تبادلے سے بچایا جائے مگر ڈائریکٹر نے صاف بتا دیا کہ جب تک ٹیچر بی اے نہیں کرے گا اس کا تبادلہ واپس نہیں کیا جا سکتا مگر بی اے کرنے کی اہلیت ٹیچر میں تھی ہی نہیں صحافی (مرحوم) نے اسے اپنی عزت کاسوال بنا لیا او پھر ٹیچر کو بی اے کے امتحان میں شامل ہونے کے لئے فارم بھرنے کوکہا ، امتحان سر پر آگیا اورٹیچر نے اپنی علمی استعداد کے مطابق پرچے دے بھی دیئے کسی میں ایک اور کسی میں دو سوال کے جواب دے کر جان چھڑائی مگر صحافی نے چونکہ ڈائریکٹر سکولز کے ساتھ تکرار کی وجہ سے اس سارے معاملے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیا تھا تو اس نے کسی نہ کسی طور پرچے چیک کرنے والوں کے نام معلوم کر لئے اور دور دراز رہائش رکھنے والے ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنے اور ان کو ”کسی بھی طریقے سے” معاملے کو سدھارنے پر ہر حد تک جانے کے لئے اپنی جیب سے رقم خرچ کی آج کل تو ہر ٹیکسٹ بک بورڈاور یونیورسٹی کے اندر ہی پرچے اساتذہ کو ان کے گھروں پر بھیج کر مارکنگ کروائی جاتی تھی پھر یوں ہوا کہ مرحوم صحافی اپنے ساتھ متعلقہ (مرحوم) ٹیچر کو ساتھ لے کر جاتے اور وہیں ان سے پرچہ مکمل کروا کے اس پر مارکنگ کروا کر اسے پاس کرنے کی کامیاب کوشش کر لیتے تھے یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ متعلقہ صحافی کے اخبار میں ہم ان دنوں کام کرتے تھے اور یہ سارا تماشا ہمارے سامنے ہی ہوتا رہا نتیجہ واضح ہے کہ ٹیچر بی اے کے امتحان میں پاس ہو گیا اور ڈائریکٹر سکولز کو اسے واپس تبدیل کرنا پڑا ۔ گویا بقول سلیم کوثر
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
یہ تو شکر ہے اللہ کا کہ جب ٹیچر صاحب نے ”بی اے” کر ہی لیا تو انہیں مزید آگے بڑھنے کی خواہش ہوئی اور انہوں نے ایل ایل بی میں داخلہ لیا اور پھر خدا جانے کس طرح وکالت کا امتحان بھی پاس کرکے محکمہ تعلیم کی جاب چھوڑ دی وگر نہ خدا جانے اپنی طرح کتنے ”شاگرد” پیچھے چھوڑ جاتا جبکہ ایل ایل بی کی ڈگری لینے کے بعد اور وکالت کی پریکٹس کا لائسنس حاصل کرنے کے لئے ایک سینئر وکیل کے ساتھ تربیت کا چھ ماہ دورانیہ بھی پورا کرکے نوٹری پبلک کا لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مرتے دم تک اسناد کی تصدیق کرتے ہوئے کمائی کرتا رہا یوں نہ صرف محکمہ تعلیم اور کالت دونوں ان سے محفوظ رہے ورنہ خدشہ تھا کہ کسی بے گناہ کو ”پھائے” لگوانے کا الزام بھی مرحوم پر لگ سکتا تھا۔
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

مزید پڑھیں:  غیرقانونی تارکین وطن کسی رعایت کے مستحق نہیں