تعلیم نسواں اور مسلم دنیا

مسلم دنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج تعلیم نسواں کے حوالے سے اختیار کئے ہوئے نامناسب روئیے ہیں، بدقسمتی سے بعض اسلامی معاشروں میں پہلے تو لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے پر ناقد کی جانیوالی خود ساختہ پابندیاں ہیں جن کا اگرچہ اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، مگر انہیں عین اسلام قرار دیتے ہوئے لڑکیوں پر یہ ظلم روا رکھا جاتا ہے، اس ضمن میں ایک حدیث کو بھی جس میں ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا تذکرہ ہے کہ علم حاصل کرو خواہ اس مقصد کیلئے تمہیں چین تک کیوں نہ جانا پڑے، بعض مذہبی حلقے ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو کم کرتے رہتے ہیں، تاہم اس کی تصدیق یا استرداد دونوں کے حوالے سے کسی مستند رائے کے اظہار سے گریزاں ہیں، قطع نظر اس حدیث کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے کی بحث درست ہے یا نہیں، مفہوم کے حوالے سے اس میں علم و تعلم کے حوالے سے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کی اہمیت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا جبکہ ایک مغربی فکر کا یہ قول بھی اپنی بے پناہ اہمیت رکھتا ہے جس کے مطابق ” تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو ،میں تمہیں پڑھی لکھی نسل دیدوں گا” ان کے کہنے کی بنیاد صدیوں سے چلا آنیوالا یہ مقولہ ہے کہ بچے کیلئے پہلی درسگاہ والدہ کی گود ہوتی ہے، جہاں بچہ ابتدائی تربیت پاتا ہے اور پھر دنیاوی درسگاہوں میں عمومی تعلیم حاصل کر کے دنیا کے مقابلے کیلئے ہر قسم کے چیلنجز قبول کرتا ہے، آج دنیا ترقی کے جن مدارج پر ایستادہ ہے ان کیلئے بنیادی ضرورت معاشروں کو اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار کرنا ہی سمجھا جاتا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع کے موضوع پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا ملک کو روشن مستقبل سے محروم کرنا ہے، انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی راہ میں بڑے چیلنجز ہیں، اس مقصد کیلئے آواز اٹھانا اور وسائل مختص کرنا ہوں گے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں مگر شرح خواندگی صرف 49 فیصد ہے، وزیراعظم نے کہا کہ سکول سے باہر بچوں میں بھی لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، انہوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم محترمہ بے نظیر شہید، ملالہ یوسف زئی ،ارفع کریم اور پہلی وزیراعلیٰ مریم نواز کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی اپنے اپنے شعبوں میں خدمات کو سراتے ہوئے کہا کہ خواتین کو تعلیم کی فراہمی کیلئے مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا ہوگا، انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو معیاری اور یکساں تعلیمی مواقع کی فراہمی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں ،لڑکیوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے سے معاشرہ مضبوط، ترقی یافتہ ہوگا، طالبات اپنی قابلیت سے عالمی معیشت میں بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کے خیالات سے انکار اور عدم اتفاق کی اگرچہ کوئی گنجائش نہیں ہے مگر جب ہم ماضی کے ادوار پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو اسے انتہائی بد نصیبی قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کی کئی دہائیوں میں ان ادوار کی حکومتوں نے تعلیم نسواں تو ایک طرف، سرے سے تعلیم کے فروغ کی ضرورت کا احساس ہی نہیں کیا اور سالانہ میزانیوں میں تعلیم کے شعبے کیلئے مختص رقم کبھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر رکھنے پر بھی توجہ نہیں دی، اس حوالے سے ان با اثر جاگیرداروں ،خوانین، سرداروں اور وڈیروں کا بڑا اہم کردار رہا ہے جو اپنے زیر اثر علاقوں میں تعلیم عام ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں بلکہ اب بھی سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں اکثر وائرل ہو جاتی ہیں جہاں دروازوں پر سکول ،مدرسہ وغیرہ کے بورڈ نصب ہوتے ہیں جبکہ اندر ان علاقوں کے باثر افراد کے گدھے بندھے ہوئے نظر آتے ہیں، ایسی صورت میں تعلیم نسواں کی کتنی اور کیا اہمیت رہ جاتی ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تعلیم کی اہمیت و افادیت کے حق میں بلند آہنگ سے تقریریں کرنیوالوں کو ہی دینا چاہیے، اس ضمن میں ہمارے ایک ہمسایہ ملک میں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنے والے حکمرانوں کے روئیے پر تو ہمارے ہاں بھی اکثر آوازیں اٹھتی رہتی ہیں مگر ایک مقولے کے مطابق تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو، اگر دوسروں کے روئیے پر معترض ہونے کی بجائے خود ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ بقول وزیراعظم شہباز شریف ہمارے ہاں ملک کی نصف آبادی سے بھی قدرے زیادہ خواتین کی کتنی تعداد تعلیمی اداروں سے باہر ہے اور کیوں ہے ؟ تو شاید اس سوال کا جواب ہمیں مل سکے کہ ایسا کیوں ہے ؟ بلکہ ہمیں اس حوالے سے عملی اقدام اٹھانے کی راہ بھی دکھا سکے تو یہ ایک بہتر اور مثبت رویہ ہوگا، ہمارے ہاں تعلیم کے میدان میں نقل کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے بھی اقدام اٹھانا ہوں گے، اسی طرح ریسرچ بیسڈ تعلیم کی کمی کی وجہ سے تعلیم کے اس معیار سے ہم اب بھی کوسوں دور ہیں جو عالمی سطح پر ہمیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیچھے رکھنے کا باعث ہے، ہمیں اگر مسابقت کر کے دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو موجودہ نظام تعلیم کے اندر موجود تمام خامیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان سے جان چھڑانی ہوگی اور اس مقصد کیلئے خواتین کو اعلیٰ معیاری تعلیم دلوانے پر بھرپور توجہ دینی ہوگی ،بصورت دیگر ایک پڑھے لکھے معاشرے کی بنیادیں استوار کرنے میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  قومی ڈائیلاگ کی ضرورت اور اہمیت