مذاکرات کے دروازے

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کا مقولہ تھا کہ جمہوریت میں مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہوں نے ہمیشہ بدترین آمریت کے ادوار میں بھی ان ادوار کے آمروں کیساتھ بھی جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا اور بالآخر جمہوریت کی بحالی میں کامیابی حاصل کی ،چہ جائیکہ ملک میں جمہوریت کا دور ہو مگر سیاسی جماعتوں کے مابین مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کے دروازے یا تو کھل نہیں رہے ہوں یا پھر ان میں رخنہ اندازی پیدا کی جا رہی ہو، ان دنوں جس طرح تحریک انصاف اور حکومتی حلقوں کے درمیان جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ملکی سیاسی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی ضرورت پر فریقین میں گومگو کی کیفیت ہے اور ایک دوسرے پر الزامات عاید کئے جا رہے ہیں، اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماء اور سابق سپیکر اسد قیصر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خواجہ آصف اور مریم نواز مذاکرات ناکام بنانا چاہتے ہیں، ادھر مسلم لیگ(ن) کے ایک اہم رہنماء کیپٹن( ر) صفدر نے بھی کہا ہے کہ مذاکرات جمہوریت میں ہوتے ہیں اور یہ دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں،دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے طور پر کچھ دیگر باتیں بھی کی ہیں جس سے پہلو تہی کرتے ہوئے فی الحال جمہوریت اور مذاکرات کے موضوع کو زیر بحث لایا جائے تو بہتر ہے ،جہاں تک اسد قیصر کے الزامات کا تعلق ہے تو ان الزا مات کا مربوط جواب تو خواجہ آصف اور مریم نواز ہی دے سکتی ہیں اور ممکن ہے ان سطور کے شائع ہونے تک ان کا رد عمل بھی سامنے آ چکا ہو جبکہ کیپٹن( ر)صفدر نے بھی جمہوریت میں مذاکرات کے اصولی مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماؤں پر جو طنز کے تیر چلائے ہیں ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ اور ان کی باتوں کا جواب بھی تحریک انصاف کے ذمہ ہے لیکن اصولی طور پر دونوں جانب کے اس متفقہ مؤقف سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جمہوریت کے فروغ کیلئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں، یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کے بانی نے اپنے اقتدار کے دور میں اس وقت کی اپوزیشن اور آج کی مقتدر جماعت اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات کرنا تو درکنار ان سے ملاقات یہاں تک کہ ہاتھ ملانے تک کو گوارا نہیں کیا اور ان پر مسلسل الزامات لگا کر انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جبکہ ان کی جماعت کے ان رہنماؤں نے جو آج جمہوریت، ڈائیلاگ اور دیگر موضوعات کا راگ الاپتے تھکتے نہیں، اس وقت اپنی جماعت کے بانی کو اپنا رویہ تبدیل کرنے اور ملک میں جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کا کوئی مشورہ نہیں دیا ،بہرحال سابقہ حکمران کی ہٹ دھرمی سے قطع نظر اگر آج مذاکرات پر زور دیا جا رہا ہے تو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  حیات شیرپاؤ،حیات وخدمات