زندگی کے مختلف شعبوں پر مہنگائی کے پڑنے والے اثرات سے عام غریب عوام کا کیا حشر ہو رہا ہے اس کے نتائج پر تعیش اور دیگر غیر ضروری اشیاء کے حوالے سے پرکھنے کی بجائے اگر روز مرہ کی اشیاء صرف اور زندگی کیلئے لازمی قرار دینے والی اشیائے خوردنی پر پڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ جو سرکاری دعوے کئے جاتے ہیں کہ مہنگائی کی شرح اتنے فیصد کم ہو گئی ہے وغیرہ وغیرہ تو ان دعوؤں کا پول کھل جاتا ہے اور اس قسم کے دعوے ہندسوں اور اشاریہ نظام کے گورکھ دھندوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ سرکاری سطح پر کی جانیوالی مہنگائی کے کم ہونے کی باتیں کاغذی سطح پر عملاً درست ہوں مگر برسر زمین حقائق کا ان سے تعلق جوڑنے میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،یعنی عام آدمی کیلئے مہنگائی میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور وہ پریشانی کے ماحول سے باہر نکلنے نہیں پاتا، اب تازہ ترین خبر بہت ہی تشویش ناک ہے، ادویات کی قیمتوں میں ڈھائی سو فیصد اضافے کے حوالے سے ہے، اس کی وجہ ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کے حوالے سے ادویہ ساز کمپنیوں کو قیمتوں کے تعین کے سلسلے میں ملنے والا وہ اختیار ہے جس کے بعد ادویہ ساز کمپنیوں نے عوام کی چمڑی ادھیڑنے کیلئے ادویات اور انجکشنوں کی قیمتوں میں 250 فیصد اضافہ کر کے عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا ہے، سب سے زیادہ اضافہ انجکشن کی مختلف اقسام کے نرخوں میں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خصوصاً دائمی امراض کے مریضوں کا علاج ان کی قوت خرید سے باہر ہو گیا ہے، نئی قیمتوں کے نفاذ کے بعد پشاور کی میڈیسن مارکیٹوں میں اے ول انجکشن کے پیکٹ کی قیمت 432 روپے سے بڑھ کر اچانک 1500 روپے تک پہنچ گئی ہیم اسی طرح ایرے نیک گولیاں 549 روپے سے بڑھ کر 686 روپے اور دیگر ایک لمبی فہرست ہے جن کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے سے عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ کس قدر بڑھ گیا ہے یہ ہوش اڑا دینے والی صورتحال ہے، بلکہ دیکھا جائے تو مریضوں کو زندہ درگور کرنیکی کوششوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملٹی پل اداروں کو اپنی ادویات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار دینے کا آخر جواز کیا ہے اور حکومت نے اپنے اختیار سے دستبردار ہونیکی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اگر یہ صورتحال یوں ہی رہی تو ادویہ ساز ادارے ہر کچھ مدت بعد از خود قیمتوں میں اضافے کو مستقل وتیرہ بنا کر عوام کو لوٹنے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کریں گے جبکہ اس کا ایک اور پہلو بھی بہت توجہ طلب ہے اور وہ ڈاکٹر صاحبان کا ” بوجوہ” مریضوں کو غیر ضروری ٹیسٹ اور اضافی دوائیاں تجویز کرنا ہے، جس سے اگر خدا کا خوف کھاتے ہوئے یہ معالجین ہاتھ کھینچ لیں تو بھی عوام کی تکالیف ختم یا کم ہو سکتی ہیں۔
