آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور صوبے کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے الگ الگ بات چیت کی۔آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں شرکا نے دہشت گردی کی لعنت کے خلاف ایک سیاسی آواز اور عوامی حمایت کی ضرورت پر اتفاق رائے کیا۔ سیاسی نمائندوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مسلح افواج اور ایل ای اے کی غیر متزلزل حمایت کی، اور دہشت گرد گروپوں کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف سیاسی رنگوں سے بالاتر ہو کر ایک متحد محاذ کی ضرورت پر اتفاق کیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہاکہ یہ جنگ جاری ہے اور ہم اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔خیبر پختونخوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے آرمی چیف سے ملاقاتوں دہشتگردی کے خلاف مسلح افواج اورقانون نافذ کرنے والے اداروںکی غیر متزلزل حمایت پر واضح موقف اپناتے ہوئے دہشت گرد عناصر کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف ایک متحدمحاذ کی ضرورت پراتفاق کیا اجماع کی یہ صورت خوش آئند ہے نیز سیاسی نمائندوں نے دہشت گردی کے خلاف قوم کی جنگ میں مسلح افواج اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیرمتزلزل حمایت کا عزم ظاہر کیااور اس بات پراتفاق کیا کہ انتہا پسند فلسفے کے خاتمے کے لئے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کراتحاد کی ضرورت ہے خیبر پختونخوا جاری سیاسی مذاکرات میں اہم حصہ داری کے باعث اہمیت کاحامل صوبہ ہی نہیں جس کی قیادت سے مشاورت و مفاہمت کے لئے مرکزی سطح پرمساعی جاری ہیں بلکہ امن وامان کے حوالے سے بھی ضلع کرم میں ہونے والے تصادم اور فسادات کاایک پس منظر بھی ہے اس حوالے سے بھی ا گرچہ زمینی سطح پرمساعی میں مورچوں کی مسماری شروع کرکے پیشرفت سامنے آئی ہے تاہم مرکزی سطح پر اس ضمن میں حکومتی قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت سے بھی اس ضمن میں مستقل قیام امن یقینی بنانے کے لئے مشاورت واعانت کی درکاریت مسلمہ ہے اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں خوارج کی بڑھتی دہشت گردی اور منصوبہ بند اغواء کے واقعات خاص طور پرقابل ذکر اور اقدامات کے حامل معاملات ہیں ان سارے مسائل و معاملات میں جہاں عسکری اور انتظامی سطح کے اقدامات کی ضرورت ہے وہاں سیاسی قیادت کو بھی شریک مشاورت کرکے اس کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ذرائع ابلاغ کی وسعت کے باعث اب پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے تاکہ پراپیگنڈے کے امکانات کوکم سے کم کیا جا سکے بہرحال جملہ امور پر آرمی چیف کی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ صوبے کے قابل ذکر و ناقابل ذکر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے پشاور میںملاقات اور عسکری قیادت کی طرف سے صوبے کی صورتحال پر بریفنگ کا اہتمام حالات پر قابو پانے اور استحکام امن کے حوالے سے مشاورت سے ان تیاریوں کا عندیہ ملتا ہے جن پر جلد عملدرآمد متوقع ہے ہم سمجھتے ہیں کہ عسکری طور پر تو صورتحال سے نمٹنے کے لئے مزید کسی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت اس لئے نہیں کہ صوبے میں نیا اقدام یا عمل شروع ہونے نہیں جارہا ہے بلکہ ایک جاری عمل کو شاید وسعت دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے تیاری کی ضرورت نہیں البتہ ایک طویل وقفے کے بعد اس محدود عمل کووسعت دینے کی ضرورت کو بروئے کار لاتے وقت سیاسی نمائندوں کو اس حوالے سے مطلع کرنے اور ان کی رائے جاننے کا عمل اسے وسیع البنیاد بنانے اور حکومتی و سیاسی حمایت کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کی اچھی سعی ہو سکتی ہے تاکہ کسی جانب سے ایسی آراء اور تحفظات کا اظہارسامنے نہ آئے جس سے اختلاف کا تاثر ملے یہ عمل اس لئے بھی ضروری تھا کہ کچھ علاقوں میں اس حوالے سے عوامی طور پر شدید ردعمل سامنے آیاتھا اور وزیر اعلیٰ نے عوام سے موقع پر جا کر وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے نمائندے ہیں محولہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے اپناوعدہ ضرور نبھایا ہوگا نیز اجلاس میں جو قابل ذکر اور ناقابل ذکر افراد موجود تھے انہوں نے بھی اپنی رائے دی ہو گی اورتحفظات سے آگاہ کیا ہو گا اس کے بعد اتفاق رائے کے بعد نئے عزم کا اظہار کیاگیا ہو گا بہرحال اس موقع پر سیاسی عمائدین اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے جس اتفاق رائے کاعندیہ دیاگیا اس کے بعد پھر توقع کی جانی چاہئے کہ کسی سطح پرتحفظات کااظہار سامنے نہیں آئے گا یہ امر مناسب نہ ہوگا کہ ایک نشست پر تحفظات کے اظہار اورموقف پیش کرنے کے بعد پھر موقف تبدیل کیا جائے اس نشست سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ صوبے کی حکومتی و سیاسی قیادت صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف ہر ممکن کارروائی کے حوالے کی حد تک مخالفانہ رائے نہیں رکھتی اور ان کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار سامنے نہیں آیا اس کے باوجود اصولی اختلاف سے صرف نظر ممکن نہیں بنیادی نکتہ بالاتفاق طے ہوجائے تو پھر سطحی نوعیت کے اختلافات اور آراء کے اظہار کی بہرحال گنجائش رہتی ہے صوبے میں خوارج کے خلاف کارروائیاں محدود اور ٹارگٹڈ ہوں اور عوام کم سے کم متاثر ہوں بلکہ کوشش ہونی چاہئے کہ عوام بالکل بھی متاثر نہ ہوں۔
