اب کسے رہنما کرے کوئی

کبھی کہیں اچانک اور غیر متوقع سوال ہو تو بندہ تھوڑی دیر کے لئے جس کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہے اس طرح کے سوال سے گزشتہ دنوں مجھے بھی دوچار ہونا پڑا جب ایک نوجوان سے تعارف ہوتے ہی انہوں نے یہ بے ساختہ سوال کر ڈالا کہ کیا موضوع کو سمجھے بغیر اس پر کالم لکھا جا سکتا ہے میں نے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر دیا آپ کالم پڑھتے ہیں میرا خیال تھا آئی ٹی کا طالب علم اپنی وسیع دنیا میں مستغرق اخبار میں شائع تحریریں کہاں پڑھتا ہو گا پھر مجھے صورتحال کو سمجھنے کے لئے وقت بھی در کار تھا کہ اس دوران غور کروں کہ جانے انجانے کوئی ایسا کالم تو نہیں لکھ بیٹھی کہ اس طرح کے سوال سے واسطہ پڑ گیا میرے دونوں ہی خیالات بلاوجہ تھے ایسا کچھ نہیں تھا بہرحال انہوں نے میرے سوال کے جواب میں کالمز پڑھنے اور جو کالم وہ پڑھتے تھے ان کے پڑھنے کی وجہ اور کالموں کا معیار بھی بتا دیا ساتھ میں انہوں نے ایک دوکالم نگاروں کے حوالے سے منفی خیالات کے ساتھ ان کونہ پڑھنے کی وجہ بھی بتا دی تب مجھے احساس ہوا کہ ”کون پڑھتا ہے” کا ہمارا خیال ہی غلط نہ تھا بلکہ اب بھی ا خبار پڑھنے والے نوجوان موجود ہیں جسے جان کر مجھے بڑی خوشی ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہ انجینئر ڈاکٹر ذکاء اللہ خان گنڈا پور ، پروفیسر ڈاکٹربادشاہ منیربخاری اور ڈاکٹر نثار محمد کو پڑھتے ہیں اور ان کے کالمز پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ تینوں کالم لکھتے وقت اپنے آپ کو کہیں دور بھیج دیتے ہیں ان کالموں میں اپنا آپ یہاں تک کہ ان کے خیالات کے اظہار میں معروضیت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا وہ موضوع سے انصاف کرتے ہیں کبھی کبھار ایسا نہ بھی ہو تو وہ اسے قبول اس لئے کرتے ہیں کہ عموماً ان کے کالمز غیر جانبدار اورغیرجانبدار تحریر کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ میرے لئے ایک نوجوان کے اپنے اخبار کے کالمز کے حوالے سے مثبت اور منفی رائے اور اس کی وجہ جاننا بڑے خوشی کی بات تھی اور اطمینان کا باعث بھی کہ اب بھی ایسے نوجوان خال خال ہی سہی موجود تو ہیں جو اخبار پڑھتے ہیں اور کالم بھی پڑھتے ہی نہیں اس پر اپنی رائے بھی دے سکتے ہیں ۔ نوجوان کے سوال کے جواب میں میں نے اولاً ان سے ہی دوبارہ پوچھا کہ کیوں کوئی غلطی ہو گئی تھی انہوں نے کہا نہیں میں دراصل (کچھ اور بعض) سب نہیں مفتیان کرام پر حیران ہوں کہ وہ بھی پاکستانی ڈاکٹروں کی طرح کبھی بھی کسی سوال اور موضوع بارے یہ نہیں کہتے کہ ان کو معلوم نہیں یہ ان کا شعبہ نہیں بلکہ ڈاکٹروں کے نسخہ لکھنے کی طرح وہ بھی سوال کا جواب دینے شروع ہو جاتے ہیں یا فتویٰ دے دیتے ہیں وہ رکے تو میں نے لقمہ دیا کہ میڈیا والوں کے بارے میں کیا خیال ہے وہ ہنسے ان کی مجبوری ہی بولنا ہے مگر وہ کونس کسی کا علاج غلط کرکے ان کی صحت سے کھیل رہے ہوتے ہیں یا پھر فتویٰ دے کر کسی کو سیدھا راستہ دکھانے اورشرعی رہنمائی کا فریضہ ادا کر رہے ہوتے ہیں اتنا تو چلتا ہی ہے ۔ ان کا جواب سن کر میرایقین مزید پختہ ہو گیا کہ صاحبزادے کو واقعی اخبار پڑھنے سے بڑی دلچسپی ہو گی بہرحال میں نے ان سے اب سنجیدہ ہو کر پوچھا کہ اب بتائیں انہیں اعتراض کس بات کا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے وہ گویا ہوئے کہ وہ مختلف حوالوں خاص طور پر اسلامک بینکنگ فاریکس ٹریڈنگ فری لانسنگ ای او بی آئی پنشن اور دیگر جدید مسائل کے حوالے سے جب رہنمائی کے لئے مطالعہ شروع کیا تو ان کو لگا کہ یہاں بھی علمائے کرام کی رائے تو منقسم ہے ہی جو اپنی جگہ لیکن بعض اوقات علمائے کرام جوملکی اور بین الاقوامی طور پر شہرت کے حامل ہیں ان کے فتوئوں یا کسی مسئلے کی وضاحت اور دیگرعلمائے کرام کے نقطہ نظر سن کر ایسا لگتا ہے کہ موخر الذکر کا اپنا کوئی مطالعہ نہیں اور نہ ہی وہ مسئلے کو پوری طرح سمجھ کراور تحقیق ومطالعہ کرکے جواب دے رہے ہیں جس کے بارے میں یہ لگے کہ وہ معاملے سے واقف تھے ،پھر انہوں نے اسلام بینکنگ کے بارے میں مختلف فتوئوں کا ذکر کیا اس کے جائز و ناجائز دونوں پر ان کا ایک نقطہ نظر تھا بلکہ انہوں نے اس ضمن میں وہ متضاد خیالات دہرائے جو مختلف مکاتب فکر کے علماء میں تھا ان کے کے مطابق فاریکس ٹریڈنگ کے سارے ہی طریقے غلط نہیں مگر علمائے کرام اسے یکسر ہی ناجائز قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر علمائے کرام اس کی کچھ صورتوں کو ناجائز اور کچھ صورتوں کو جائز قرار دیتے ہیں پھر انہوں نے انشورنس و تکافل کا بھی بتایا دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو ضعیف العمری پنشن کے بارے میں بھی معلومات اور علماء کی مختلف رائے کا علم تھا ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارے پاکستانی علمائے کرام فتویٰ اور رائے دینے میں تو پیش پیش ہیں مگر ان کو موضوعات پر عبور نہیں جبکہ دیگر ممالک کے علمائے کرام کا مطالعہ تفصیلی ان کے اعتراضات و جواب مدلل اور سوال یا موضوع کا احاطہ کئے ہوتے ہیںباقی بات رہ گئی تسلیم کرنے نہ کرنے کی وہ بندہ جانے اور اس کا خدا جانے لیکن حتی ا لوسع سمجھانے اور اشکال کو دور کرنے کی ذمہ داری علمائے کرام کو نبھانا چاہئے یہ نہیں کہ پچھلے دور کے علمائے کرام لائوڈ سپیکر پر نماز کو جائز نہیں سمجھتے تھے آج تو کوئی اس پر بولتا ہی نہیں یہ میرے خیالات نہیں بلکہ ان کے خیالات کی ترجمانی اور تشریح ہی سمجھ لیجئے،علمائے کرام اور عصری علوم حاصل کرنے والوں کے درمیان جس رشتے اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے وہ اعتماد کا رشتہ بن ہی نہیں پا رہا ۔ علمائے کرام عصری علوم والوں کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور عصری تعلیم یافتہ علمائے کرام سے کھچے کھچے رہتے ہیں نتیجتاً دوریاں اختلافات و اعتراضات یہاں تک کہ نفرتیں پیدا ہوتی اور بڑھتی جاتی ہیں اس کا نہ تو علمائے کرام اور نہ ہی دوسرے فریق کو احساس ہے جبھی توعلمائے کرام کا کردار نماز تراویح ، نکاح و نماز ، جنازے تک محدود ہو گئی ہے اور بدقسمتی سے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات بنانے کی بجائے ہم نے بس ایک محدود مذہب کا درجہ دے دیا ہے یہی صورت رہی تو ایک دو نسل اور آجائے تو خلیج مزید وسیع ہو گی اسے کیسے روکا جائے غور و فکر کی دعوت ہے۔

مزید پڑھیں:  آج تک ہوں فقط فریب خیال میں