بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ، پانی کے مسئلے پر کیا کھچڑی پک رہی ہے ، ویسے تو یہ بیانیہ ا یک عرصے سے بہت زیادہ وائرل ہے کہ آئندہ صدی پانی پر جنگوں کی صدی ہو گی مگر ابھی اس صدی کے آنے میں تقریباً پون صدی باقی ہے مگر صورتحال ابھی سے صرف ہمارے ہاں گھمبیر ہوتی جارہی ہے ، اور دو صوبوں کے مابین پانی پر ”قبضے” کے حوالے سے تو تکار تک نوبت جا پہنچی ہے ، یہ سب کیا ہے اس کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ پنجاب نے اپنے ہاں”اپنے” حصے کے پانی پر ایک نیا نہری نظام بنانے کا پروگرام بنا لیا ہے بلکہ اس حوالے سے ان دنوں خبریں بھی گرم ہیں جبکہ سندھ حکومت نے اسے مبینہ طور پر پانی کی”چوری” قرار دیتے ہوئے شور و غوغا مچانا شروع کر دیا ہے اور دھمکیاں لگائی جارہی ہیں کہ ”پانی پر جنگیں تک لڑی جاتی ہیں ” گویا انہوں نے خبردار کر دیا ہے کہ اگر پنجاب اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو اس کے نتائج مبینہ طور پر سنگین بھی ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے استاد محترم پروفیسر شرر نعمانی مرحوم نے کہا تھا
گلی گلی میں قیامت سی ایک برپا ہے
امیر شہر سے کہہ دیجئے سب اچھا ہے
مسئلہ مگر یہ ہے کہ سب اچھا کہاں ہے؟ اور جو تازہ صورتحال بنی ہے اس پر کچھ کہنے سے پہلے ان حالات پر ایک مختصر سی نظر ڈال لی جائے تو اصل حقائق تک پہنچنے میں شاید زیادہ مشکل نہ پڑے قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چند برس کے دوران پاکستان کے تین دریائوں کو”بھارت” کے ہاتھ فروخت کرکے اس دور کے حکمرانوں نے جو ظلم اس ملک کے عوام پرڈھایا اس کی وجہ سے ہمارے ہاں پانی کے بحران نے سر اٹھایا ، تاریخ کے اوراق میں علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کی وہ ”تنبیہ” اب بھی موجود ہو گی جب تقسیم برصغیر کے موقع پرانہوں نے بھارت کے ساتھ موجودہ حد بندیوں پر اعتراض کرتے ہوئے بابائے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بقول ان کے ”لولالنگڑا پاکستان مت قبول کرو ، یہ ہندو تمہارا پانی بند کر دیں گے ”۔ الفاظ ممکن ہے یہ نہ ہوں مگر مفہوم یہی تھا ، اس پر علامہ مشرقی کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں پاگل قرار دیاگیا اور کہا گیا بھلا پانی بھی کوئی بند کر سکتا ہے ؟ مگر تاریخ نے دیکھ لیا کہ بھارت نے نہ صرف تین دریائوں کی ملکیت حاصل کرکے دیگر تین دریائوں پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیر قانونی بند باندھ کر ان دریائوں کا رخ موڑا اور جب ضرورت پڑتی ہے وہ پانی اپنے ڈیموں میں جمع کر دیتا ہے دریائے راوی کو بالکل خشک کر دیا گیا ہے جبکہ ستلج اور جہلم میں پانی اس وقت چھوڑتا ہے جب اسے اس کی ضرورت نہیں رہتی اور اس حوالے سے بھی وہ پاکستان کو اطلاع دینے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتا یوں پاکستان کے نصف حصوں میں سیلاب آنے سے جو تباہی اور بربادی آتی ہے وہ تباہ کن ہے ، جس کی وجہ سے نہ صرف ایکڑوں پر کھڑی فصلیں برباد ہو جاتی ہیں بلکہ بستیوں کی بستیاں ویران ، لوگ بے در ، بے گھر بلکہ در بہ در ہو جاتے ہیں اور ان کی دوبارہ آباد کاری بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے دوسری جانب ایک اور مسئلہ یہ ہوا کہ بھارت کی اس مستقل ہٹ دھرمی کی وجہ سے جب پاکستان پانی کی اس چوری کے مسئلے کو عالمی عدالت میں لے گیا تو طویل عرصے تک اس پر دونوں ملکوں کے ماہرین کے درمیان بحث مباحثے کا (بالآخر) انجام کچھ یوں ہوا کہ پاکستان کی جانب سے جس شخص کو کمیشن میں حصہ لینے والی ٹیم کا سربراہ بنا کر بھیجا جاتا رہا اس کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ موصوف نے مبینہ طور پرپاکستان کے موقف کو بھارت کی جانب سے ”بھاری پیشکش” پر نیلام کرکے بیرون ملک”پناہ” لے کر پاکستان کو بیچ منجدھار چھوڑ دیا اور بھارت نے خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے ایک مشہور بھارتی فلمی گانا گاتے ہوئے ساتھ میں بھنگڑہ بھی ڈالا کہ
تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا
ہو رہے گا ملن یہ ہمارا تمہارا
پانی کے اس غیر منصفانہ تقسیم اور پھر بھارت کے پاکستان کے مزید پانی پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے پاکستان کے اندر جس بحران نے جنم لیا ہے اس کا تعلق اندرون ملک پانی کی تقسیم کے ساتھ بھی بنتا ہے پاکستان کے اندر بہنے والے دریائوں کی تقسیم کے حوالے سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ صحرائے چولستان میں ہزار ہا ایکڑ ریگستانی علاقوں کی کچھ طاقتور حلقوں جن میں پنجاب کے جاگیر دار ، نوابین ، سرداراور بعض دیگر طبقات بھی شامل ہیں اور جن کا تذکرہ ”خوف فساد خلق” کے محاورے کے تحت اتنا آسان بھی نہیں خصوصاً ہم جیسے کمزور اور ہماکڑ لوگوں کی تو جرأت بھی نہیں ہو سکتی کے ہاتھوں اُنے پونے فروخت اور ان کی آباد کاری کے لئے پانی کی وافر مقدار میں ضرورت کے جو تقاضے ہیں ان پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا ہے تاہم یہ طاقتور طبقات ہر صورت یہ پانی حاصل کرنے کے لئے ابتداء ہی سے ”کالا باغ ” ڈیم کی تعمیر پر نہ صرف تکیہ کئے ہوئے ہیں بلکہ بضد بھی ہیں مگر باقی کے تین صوبے بھی اسے اپنی موت اور زندگی کا مسئلہ بنا کر اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کے متبادل کے طور پر دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر چاہتے ہیں اور بالآخر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا حتمی فیصلہ جنرل مشرف کے دور میں کئے جانے کے بعد اس کو بھی کسی نہ کسی حوالے سے ”متنازعہ” بنانے کی کوششیں تیز کردی گئیں یہاں تک کہ پہلے اس کی ملکیت کا قضیہ چھیڑ کر اس میں لفظ دیا میر کا اضافہ کرکے اسے دیا میر بھاشا ڈیم کا نام اور رائلٹی میں گلگت بلتستان کو شامل کرکے ہی متعلقہ حلقوں کو سکون ملا ، مگر اس کے باوجود بھی یہ طبقہ جو ہر صورت کالا باغ ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں پھر بھی باز نہ آئے اور ایک جانب پنجاب کے دریائی سسٹم میں توسیع کی منصوبہ بندی شروع کر دی جس پر حکومت سندھ نے شدید اعتراضات اٹھا کر ”پانی کے مسئلے پر جنگ” جیسے الفاظ استعمال کرکے سخت ردعمل دیا ، اسحق ڈار نے کہا کہ اگر ایک بوند پانی بھی دوسروں کا استعمال کیا جائے تواعتراض بنتا ہے مرزا غالب نے بھی ایک دوست کے اصرار پر کہ ”مرزا جی اب کی بار کتنے روزے رکھے؟” جواب میں کہا تھا ” ایک نہیں رکھا” یوں اسحق ڈار کے بیان کو بھی مرزا غالب کے کلیئے پر پرکھتے ہوئے کہ دوسروں کاایک بوند پانی استعمال کئے بغیر ۔۔۔یعنی اس فقرے کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ ایک بوند نہیں لیا بلکہ کروڑوں کیوسک پانی لے کر نیانہری نظام چلانا چاہتے ہیں ، خیر بہ تو تفنن طبع کے لئے جملے بازی سے کام لے کر مسئلے کی گھمبیر ہوتی ہوئی صورتحال کوواضح کرنے کی کوشش کی ہے ، مگر دوسری جانب وہ محاورے والی بلی بھی تھیلے سے باہر آرہی گئی ہے یعنی اب تازہ خبر بھاشا ڈیم کے حوالے سے یہ آئی ہے کہ حکومت نے بھاشا ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کامنصوبہ ترک کردیاہے اور اس ڈیم میں ذخیرہ کیا جانے والا پانی صرف ”آبی ضروریات” کے لئے استعمال کیا جاتا رہے گا جبکہ سی پیک کے تین بڑے منصوبوں سے پانچ ہزار سات میگا واٹ بجلی پیداوار کے منصوبے بھی ترک کردیئے گئے ہیں اوراب بھاشا ڈیم سے صرف زرعی مقاصد کے لئے پانی حاصل کیا جائے گا اس خبر کی گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو چونکہ بھاشا ڈیم سے ملکی ضروریات سے کہیں زیادہ بجلی پیدا ہونے کے بعد اورملکی سطح پر سستی ترین بجلی کی وجہ سے نہ صرف (آئی پی پیز کو خدا حافظ بھی کہہ دیا جائے گا) بلکہ صنعتی ترقی کی راہ ہموار ہوجائے گی ، مگر اس میں سے بجلی کے منصوبے کوختم کرنے اور ساتھ ہی سی پیک کے تین بڑے منصوبوں سے مزید پانچ ہزار سات میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کے بعد ملکی ضروریات سے فالتو بچ جانے والی بجلی کو فروخت کرکے ملک کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے لیکن بھاشا ڈیم سے بجلی پیدا وار ختم کئے جانے سے صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت کو رائلٹی کی مد میں جو اربوں کا سالانہ منافع ملنے کی توقع ہے اس کو ختم کرکے ان دونوں صوبوں کو بھاری منافع سے محروم کیا جانا مقصود ہے اور عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آئی پی پیز کی غلامی میں جکڑے رکھنا بھی اس کا دوسرا پہلو ہے گویا یوں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اب رفوگر بھی کہاں تک کرے محنت مجھ پر
زخم اک سلتا نہیں دوسرا لگ جاتا ہے
