بجلی سستی ہونے کے ا مکانات

وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو بجلی کی قیمتوں میں کمی اور مزید 15آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدوں کی خوشخبری سناتے ہوئے بجلی صارفین کے لئے گیارہ روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کے حوالے سے اقدام اٹھانے جبکہ سرکاری جنریشن کمپنیوں کو ڈالروں میں کیپسٹی ادائیگیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح مجروح کر رہی ہیں اور اس حوالے سے آئی پی پیز کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں پر نظر ڈالی جائے تو جن لوگوں نے یہ ظالمانہ معاہدے کرائے انہوں نے ملک کے مستقبل کو مشکلات میںڈال دیا تھا ، اب یہ بات کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا کہ ان معاہدوں کے ذریعے آئی پی پیز کو عوام کا خون چوسنے کی کھلی چھٹی دی گئی اس صورتحال پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے عوام کی خواہشات کے مطابق شدید احتجاج کے بعد بالآخر حکومت کو اس جانب توجہ مرکوز کرنا ہی پڑی جبکہ ملک میں بجلی چوری کا رجحان بھی اس لئے بڑھتا رہا کہ عام غریب آدمی مسلسل مہنگی ہوتی ہوئی بجلی خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوئے بہ امر مجبوری کنڈہ کلچر کو فروغ دینے پر آمادہ ہوتا رہا جونہ قانوناً جائز ہے نہ اخلاقیات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ بجلی چوری کی جائے ،دوسری جانب حکومت نے جب بھی عوام کو ریلیف دینے کے لئے بجلی کے ٹیرف میں کمی کی ذرا سی بھی کوشش کی تو آئی ایم ایف نے اس کے ہاتھ روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بجلی قیمتوں میں کمی کی کوششوں کو ناکام بنا دیا کیونکہ اسے یہ خدشہ تھا کہ اس طرح حکومت کی آمدن کم ہونے سے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے میں دشواری ہوگی تاہم حککومت نے آئی پی پیز کے ساتھ ہوئے ظالمانہ معاہدوں پر نظر ثانی کرنے اور بعض کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کی راہ اختیار کرکے صورتحال کوبگڑنے سے بچانے کے لئے اہم اقدامات اٹھائے اور اب گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کچھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والی سرکاری کمپنیوں کا کیا کام کہ وہ کیپسٹی پیمنٹ لیں وہ سرکار کے منصوبے ہیں ڈالرمیں ادائیگیاں بڑامسئلہ ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس پر حیرت کا اظہار کئے بغیر رہا ہی نہیں جا سکتا کہ سرکار کی اپنی ملکیت کوئی ادارہ بھلا کیپسٹی پیمنٹ کیونکر اور کس قانون کے تحت وصول کر سکتی ہے حالانکہ یہی سوال نجی کمپنیوں کے حوالے سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کمپنیوں کے ساتھ سراسر گھاٹے کا یہ سودا کیونکر اور کس کے حکم پر کیاگیا جس سے عوام کو عذاب میں مبتلا کیاگیا؟ کیا ایسے معاہدے کرنے والوں کے خلاف حکومتی سطح پر تادیبی کارروائی کرکے ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بعد میں آنے والوں کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی؟ وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزارت توانائی کی ٹاسک فورس بڑی تیزی سے کام کر رہی ہے اور اس نے بڑی محنت سے تین ہزار میگاواٹ کے اہداف حاصل کئے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بڑی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے نظر ثانی شدہ معاہدوں کی رو سے چودہ آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے بعدمذکورہ آئی پی پیز کے منافع اور لاگت میں 802 ارب روپے کی کمی کی تجویز منظورکی گئی ہے جبکہ ان آئی پی پیز سے گزشتہ سالوں کے اضافی منافع کی مد میں 35ارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی اور اب تک نظر ثانی شدہ معاہدوں کے تحت حکومت کو 1.4 کھرب روپے کافائدہ ہو گا جس کا فائدہ صارفین کو پہنچے گا ان آئی پی پیز سے گزشتہ سالوں کے اضافی منافع کی مد میں 35 ارب روپے کی کٹوتی کے حوالے سے صارفین کو تقریباً 11 روپے فی یونٹ کمی سے عوام کو ریلیف تو یقینا ملے گا یہاں یہ بات خاص طورپر قابل ذکر ہے کہ جب تک ملک کے اندر بجلی کے نئے منصوبے نہیں لگائے جائیں گے اور بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیںکیا جائے گا یہ صورتحال جوں کی توں اور عوام کے لئے سوہان روح بنتی رہے گی مگر انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ ابھی تین روز پہلے ایک خبر آئی ہے جس کے مطابق حکومت نے بھاشا ڈیم جیسے قوم و ملک کے وسیع ترمفاد میں تعمیر کئے جانے والے منصوبے کو صرف زرعی مقاصد تک محدود رکھنے اور اس سے بجلی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی ترک کر دیا ہے جوملک وقوم کے ساتھ صریح زیادتی کے مترادف ہے کیونکہ صرف زرعی مقاصد کے لئے پانی جمع کرکے اوربجلی کی پیداوار کے حصول کے مقاصد سے ہاتھ کھینچ لینے سے ملک پر آئی پی پیز کی ظالمانہ گرفت برقرار رہے گی ملک میں بجلی سستی ہونے کا خوا ب کبھی پورا نہیں ہو گا صنعتی ترقی نہیں ہوسکے گی اور برآمدات میں ا ضافے کی کوئی صورت نہیں نکلے گی بے روزگاری ختم نہیں ہو گی جبکہ بھاشا ڈیم کا نام بھی تبدیل کرکے بھاشا بیراج رکھنا پڑے گا جس کا مقصد صرف زراعت کے لئے پانی کی فراہمی کے علاوہ اور کوئی مقصدنہیں رہے گا یہ فیصلہ جس نے بھی کیا اس نے ملک و قوم کے مستقبل کی سوچ ترک کر دی ہے جو گھاٹے کا سودا ہے۔

مزید پڑھیں:  آسمان کو چھوتی مہنگائی