اچھائی ہماری فطرت میں شامل ہے اور ظاہر ہے کہ اگر ہم میں سے چند بھی وہ مطلوبہ اچھائی کررہے ہوتے جو اصل مقصود ہے تو معاشرے کا رنگ ڈھنگ ہی اور ہوتا، اور جب ہم اچھائی کر نہیں سکتے تو ہر معاملے پر اچھا سا تبصرہ کرکے خود کو یہ باور کروا لیتے ہیں کہ ہم نے اچھا کام بھی کرلیا ہے اور ہم بری الذمہ بھی ہو گئے ہیں، آپ نے اکثر خود کو یا لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ یہ ہم پر اللہ کا عذاب ہے، یا یہ فلاں پر اللہ کا عذاب ہے، یہ کہہ کر ہم خود کو اطمینان اور تسلی دیتے ہیں اور معاملے کی نوعیت اور اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کر لیتے ہیں، سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ اللہ پاک لوگوں کو عذاب دینے سے متعلق کیا فرماتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑنے لگتا تو روئے زمین پر ایک چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا ، لیکن وہ ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے، (فاطر)، حال ہی میں امریکی شہر لاس اینجلس کے جنگلات میں تاریخ کی خوفناک ترین آگ لگی جسے امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی آفت قرار دیا جا رہا ہے اس واقعے پر ہماری اکثریت نے شادیانے بجائے اور کہا کہ دیکھو اللہ کی پکڑ کتنا سخت عذاب آیا ہے ان پر، سوال یہ ہے کہ یہ کیسا عذاب ہے کہ ہر گھر، ہر عمارت اور ہر گاڑی کا بیمہ ہوا ہے اور ہر کسی کا نہ صرف بیمہ والوں کی جانب سے بلکہ حکومت کی جانب سے ہر قسم کی فوری امداد فراہم کی جائے گی، ایک اور مثال دیکھیں کہ جس کو ہم اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں، بارش نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں خشک سردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ہر دوسرا بندہ متاثر ہوا ہے، اس خشک سردی کے باعث کھانسی، نزلہ ، زکام اور سینے کی بیماری کے مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو ا ہے، دمہ، پھیپھڑوں، اور دل کے مریضوں کو موسمی کیفیت کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ بچوں میں خسرہ، نمونیہ کے مرض میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے،ہر ہسپتال کی او پی ڈی اور ایمرجنسی میں جبکہ نجی شفا خانوں میں بھی یومیہ سیکڑوں متاثرہ مریض نظر آتے ہیں، سر شام دواخانوں میں عوام کی بھیڑ نظر آتی ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بارش ہونے تک یہی کیفیت برقرار رہ سکتی ہے، بارش کے باعث دھند اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی آنے سے شہریوں کو موسمی بیماریوں سے چھٹکارا ملے گا، اس بارش کے نہ ہونے کو ہم اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں، اگر یہ اللہ کا عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی ہے تو پھر تو کبھی بھی بارش نہیں ہونی چاہیئے، محکمہ موسمیات نے تو فروری میں بارش کی پیش گوئی کی ہے، ایک حدیث مبارکہ ہے کہ جب لوگ زکوٰة روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارش روک لیتا ہے، (مستدرک حاکم)، پہلی بات تو یہ ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے ہم پوری دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ اور خیرات کرنے والے لوگ ہیں، پھر بارشیں کیوں نہیں ہو رہی ہیں، اور دوسری بات یہ کہ جب بارش ہو گی تو اس کا مطلب ہے ہم نے زکوٰة دینا شروع کر دی ہو گی، اصل معاملہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی طرف سے بے توجہی اور اس سے دُوری کے نتیجے میں جو بے شمار فکری اور عملی کوتاہیاں شعوری یا غیرشعوری طور پر ہم میں پیدا ہوگئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے ذہنوں میں عذابِ الٰہی کا ایسا تصور قائم کرلیا ہے، جو کسی بھی طور پر قرآنی تصریحات سے مَیل نہیں کھاتا، ہم تو مسلسل ذلت اور رسوائی کا شکار ہیں، کیا یہ اللہ کا عذاب نہیں ہے، ہم کیوں نہیں سوچتے کہ اس میں سے نکلنے کی کوئی تدبیر کریں، آج اُمت مسلمہ ان عذابوں سے بار بار دوچار ہونے کے باوجود، ان پر اس پہلو سے غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی کہ کہیں یہ ہمارے اعمالِ بد کی پاداش میں ہمارے لیے عذاب کی کوئی صورت تو نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے طبعی اسباب و عوامل تلاش کرکے مطمئن ہورہتی ہے، اور اس طرح ان میں اصلاح و تذکیر کا جو پہلو تھا، اس سے غافل رہ جاتی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بارشوں کا نہ ہونا اللہ پاک کی سخت ناراضگی ہے اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رجوع الی اللہ کرے، حضرت موسیٰ کے زمانہ میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا، لوگ پریشان اور بے حال ہو کر سید نا موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت باران رحمت نازل فرمادے، موسیٰ علیہ السلام دعا کے لیے ستر ہزار بنی اسرائیل کے ہمراہ جنگل میں نکل گئے اور بارش کی دعا فرمائی کہ الہی معصوم بچوں، نیک بوڑھوں اور بے زبان جانوروں کے طفیل ہم پر رحم فرما کر باران رحمت نازل فرما، ہر نبی مستجاب الدعوات ہوتا ہے، اس اعتبار سے دعا کے بعد بجائے اُمید بندھنے کے آسمان پہلے سے زیادہ صاف اور آفتاب پہلے سے زیادہ گرم ہو گیا، تو موسیٰ علیہ السلام کو بہت حیرت ہوئی، پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر عرض کیا یا اللہ اگر تیری بارگاہ میں میری وجاہت ختم ہوگئی ہے تو نبی آخر الزماں محمدۖ کے واسطہ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اپنی رحمت متوجہ فرما کر بارش نازل فرما، اسی وقت وحی آئی اے موسیٰ! تمہا را مرتبہ ہمارے یہاں بالکل نہیں کم ہوا، تم اب بھی ہمارے نزدیک مرتبے والے ہو، مگر بات یہ ہے کہ تمھاری قوم میں ایک ہمارا نا فرمان بندہ ہے، جو چالیس سال سے ہمیں ناراض کرتا رہا ہے، جب تک وہ موجود ہے ہم ہرگز ایک قطرہ بارش نہیں برسائیں گے، آپ اعلان کریں، تا کہ مجمع سے وہ نافرمان چلا جائے جس کے سبب بارش رکی ہوئی ہے، حکم پاکر موسیٰ علیہ السلام نے اعلان فرمایا، تو وہ نافرمان بندہ اپنی جگہ کھڑا رہا، چاروں طرف نظر ڈالی، جب اس کے علاوہ اور کوئی مجمع سے نکلتا نظر نہ آیا تو اُس نے سوچا کہ اگر باہر نکلتا ہوں تو سب کے سامنے رُسوائی ہوتی ہے، اور اگر نہیں نکلتا تو میرے گناہوں کے سبب بارش نہ ہونے سے سب کے لیے پریشانی ہوتی ہے، سوچ کر دل میں تو بہ کا فیصلہ کر لیا، پھر چہرے پر پردہ ڈالا اور غفار الذنوب، ستار العیوب سے معافی طلب کی، اے میرے رب کریم! یہ تیرا بندہ، سراپا گندہ، اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ اور طالب تو بہ ہے، یا اللہ! میں نے چالیس سال تک تیری نافرمانی کی مگر تو مہلت دیتا رہا، اب تیری طرف توبہ کے ارادے سے متوجہ ہوا ہوں، پس قبول فرما محروم نہ فرما، مایوس نہ فرما، بس پھر کیا تھا، روایت میں آتا ہے کہ ابھی تو دعا اور تو بہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، موسیٰ علیہ السلام کو بڑا تعجب ہوا؟ عرض کیا اے اللہ! ابھی تو وہ بندہ مجمع سے باہر نکالا بھی نہیں، پھر یہ بارش کیسے برسی، ارشاد ہوا موسیٰ پہلے جس کی وجہ سے بارش ر کی تھی اب اُسی کی وجہ سے برسائی ہے، اس لیے کہ اس نے تو بہ کر کے ہم سے صلح کر لی ہے، ہمیں راضی اور خوش کر لیا، (کتاب التوابین از ابن قدامہ المقدسی)۔
