حماس ا سرائیل معاہدہ

پندرہ ماہ کی لڑائی کے بعد بالاخر اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے کے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے جس کے بعد مشرق وسطیٰ میں15 ماہ سے جاری لڑائی کے ممکنہ خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کی تجویز پر اتفاق کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے معاہدہ میں6 ہفتوں کی ابتدائی جنگ بندی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، اس کے تحت وسطی غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی شامل ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت قطر، مصر اور امریکہ نے دی ہے۔ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کا آغاز پہلے مرحلے کے16 ویں دن سے شروع ہوں گے، دوسرے مرحلے میں تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلا کا معاملہ شامل کیے جانے کی امید ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اعلان کردہ جنگ بندی معاہدہ غزہ تک امداد کی فراہمی کی راہیں کھولے گا۔نیز اس میں جنگ بندی اور آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہے۔ اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی کی سرحد پر تعینات رہیں گی جبکہ قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے ساتھ بے گھر افراد کو ان کی رہائش گاہوں پر واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے بارے تفصیلات کو پہلے مرحلے کے نفاذ کے دوران حتمی شکل دی جائے گی۔اس معاہدے سے جنگ کا خاتمہ ہو گا اور یرغمالی یکے بعد دیگرے پروگرام کے مطابق اپنے گھرلوٹ سکیں گے حالات میں بہتری آنے پر مزید اقدامات کی راہ ہموار ہوگی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمالی کے طور پر قبول کرلیاگیا ہے جبکہ اسرائیل کے پاس حماس کے قیدیوں کا کوئی تذکرہ نہیں صرف گرفتار فلسطینیوں کی رہائی کا تذکرہ کیاگیا ہے قبل ازیںبھی کہا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل کوحماس کے جنگجوئوں کوزندہ پکڑنے کی کسی بھی کامیابی نہیں ہو پارہی ہے اسرائیل کا غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے بعد بالاخر معاملات طے کرنے کیلئے حماس سے مذاکرات اور معاہدہ اسرائیل کی کوئی بڑی کامیابی نہیں نیز اسرائیل غزہ سے پیچھے ہٹے گا اور اس کی فوجیں سرحد پر ہوں گی بہرحال ہار جیت کافیصلہ ہوئے بغیر معاہدہ سے ایسے دونوں فریقوں میں پلڑا تقریباً برابر رہا جس میں سے ایک فریق نہتا اور دوسرا فریق طاقتور ہی نہیں بلکہ دنیا اس کی پشت پرتھی جبکہ فلسطینیوں کے لئے دنیا بھر میں عوامی سطح پرمحدود پیمانے پر ہی آواز بلند ہوئی اس ساری صورتحال میں اسلامی ممالک کاکردار جس بے حسی اور بے حمیتی کا رہا مسلم ممالک اگر سفارتی سطح پر ہی مربوط اور مخلصانہ کوششیں کرتے تو اسرائیل اس قدرکھل کر غزہ کوقبرستان نہ بنا دیتا یہ عرب ممالک کے کمزورکردارہی کا اعجاز تھا کہ اسرائیل نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا اور گریٹر اسرائیل کانقشہ جاری کردیاگیا ان تمام عوامل کومدنظررکھتے ہوئے دیکھا جائے توحماس کے فدائیوں نے شہادتیں پیش کرکے اسرائیل کوجس طرح چیلنج کیا اوراس کے دفاعی نظام کی کمزوریاں سامنے آئیں اس سے اسرائیل کی پوری ریاست اندر سے لرزا گئی ہے اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کو اگر ایئر فورس کی وحشیانہ بمباری سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو زمینی طور پر وہ حماس کے مقابلے میں ناکام رہے اور الٹا ان کویرغمالی بنایاگیامذاکرات کی میز پربھی اسرائیل نے کھلے ذہن کے ساتھ بیٹھنے کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ ہر بار کسی معاہدے کی منزل نظرآتے ہی اسرائیل نئی شرائط عائد کرکے پورے عمل کو سبوتاژ کرتا رہا عین ان دنوں جب یہ معاملات جاری تھے اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کانقشہ جاری کرکے غیرمفاہمانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور توسیع پسندانہ عمل کو ہوادی مسلم حکمرانوں اور خاص طور پرعرب کے شاہوں کوحماس جیسی چھوٹی اور محدود ترین بلکہ بے وسیلہ تنظیم کی جدوجہد ہی سے سبق سیکھنا چاہئے جس کے ساتھ اسرائیل بالاخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور معاہدے پر مجبور ہو گئی اگر امت مسلمہ اور بالخصوص عرب ممالک چاہیں تو اسرائیل یوں امت مسلمہ کے سینے پر مونگ نہیں دل سکے گا اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ محض ایک نقشے کا اجرا نہیں اسرائیل کے حقیقی عزائم کا آئینہ داربھی ہے جس کے لیے وہ دوہزار سال سے منتظر تھے اور جس کے لیے گزشتہ ایک صدی سے کام کر رہے ہیں، اسرائیل نے اپنے جن توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار کیا ہے اگر اس پر بند باندھے کے اقدامات نہ کیے گئے تواس ڈرامے کے اگلے سِین کا منظر کیا ہوگا، اس کے لیے نگاہوں کو پردہ اٹھنے کا منتظر نہیں رہنا پڑے گا بلکہ مسلم حکمرانوں کو اپنی آنکھوں پر پڑے پردے کا علاج کرانا پڑے گا، اب وقت آگیا ہے کہ اس منہ زور طوفان بلاخیز پیش آمدہ طوفان کا مقابلہ کرنے کی مل کر منصوبہ بندی کی جائے، کیونکہ پر امن بقائے باہمی کے آفاقی اصولوں کو اسرائیلی عزائم نے ملیا میٹ کردیا ہے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانا زیادہ مشکل نہیں لیکن اس کی توقع کم ہی ہے حالات اسی طرح رہے اور حماس جیسی عزم جہاد کی حامل تنظیموں نے اسرائیل کا راستہ نہ روکے رکھا تو اسرائیل کھل کر کھیلنے سے گریز نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں:  گھر کی لڑائی کو باہر مت لے جائیں